نعم اَلوکیل
ملک جمعہ خان، چا چا سجاد، ملک نوید اور نعم الوکیل میرے رومیٹ تھے اور اللہ کے مہمان تھے۔ ملک جمعہ خان نیشنل ہائی وے میں ڈرائیور تھے اور ہر فن مولا تھے۔ کئی محکموں میں نوکری کی اور درجنوں ہنر سیکھے مگر سیلانی طبیعت کی وجہ سے ایک جگہ نہ ٹھہر سکے۔ کثیر الاولاد تھے اور قناعت پسندی کے اصولوں پر گامزن تھے۔ میرے نزدیک ان کی سب سے بڑی خوبی بیمار بیوی سے پیار اور احترام کا رشتہ تھا۔ وہ اپنی بیگم کو حاجی صاحب کہہ کر پکارتے اور محبت بھرے لفظوں کو ادب و احترام کی خوشبو میں رچا کر بیگم کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ اُن کی بیگم نے عمرہ کیا تھا اور حج کا ارادہ تھا۔
چچا سجاد اپنی ہی دنیا کا سفیر تھا اور سفر در سفر کی داستان تھا۔ سارے پاکستان میں شکاری ٹیموں کے ساتھ گھومنا پھرنا محبوب مشغلہ رہا اور اب یہ سفر گھر سے کھیتوں تک یا پھر حسن ابدال شہر تک محدود تھا۔ چاچا سجاد کو کچھ سال پہلے گھٹنے پر چوٹ لگی تو دیسی علاج کروایا مگر افاقہ نہ ہوا۔ کشتوں اور مالشوں نے بھی کام نہ کیا مگر چاچا سجاد اپنے کاموں میں مصروف رہا۔ وہ جھک کر چلتا ہے رکتا نہیں۔ گھڑ سواری کرلیتا ہے اور دُور کا سفر گھوڑی پر کرتا ہے۔ مزدور یونین کا عہدیدار بھی رہا ہے اور سیاسی دائو پیچ خوب جانتا ہے۔ پوچھا کبھی بیگم کا حال احوال نہیں پوچھا صرف بیٹوں سے بات کرتے ہو۔ کہنے لگا ہمارے ہاں بیگمات سے باتیں کرنے کا رواج نہیں ۔سجاد کو اپنے مال مویشیوں خاص کر گابھن بھینسوں کا زیادہ خیال رہتا اور وہ بیٹوں سے بھینسوں کے متعلق تازہ ترین معلومات حاصل کرتا اور نئی ہدایات دیتا۔
ملک نوید اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور اعلیٰ سرکاری افسر بھی تھے۔ احتیاط، شائستگی اور سلیقہ پہلی ترجیح تھی۔ نماز باجماعت، نیند اور خاموشی، عالمانہ گفتگو اور کبھی کبھی بے وجہ غصہ ۔مگر تھوڑا۔ بیگم، بیٹی اور بیٹے سے الگ الگ اوقات میں بات کرتے چونکہ بچے بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر فائیزتھے۔ بیگم کو وہ کرماں والی کہہ کر پکارتے تو مجھے طاہرہ ملک یاد آجاتی۔ وہ کرماں والی سرکارؒ کی پڑوسن تھی مگر کاج داج سے فارغ ہی رہی۔ عرصہ تک لوگ آتے رہے ،جاتے رہے اور ملتے ملاتے بھی رہے مگر پسند ناپسند کی نوبت ہی نہ آئی۔ جو آتا پھر آنے کا کہہ جاتا مگر پھر نہ آتا۔ یہ جھگڑا دیر تک چلتا رہا مگر فیصلہ نہ ہو سکا ۔نہ کرماں والی سرکار ؒنے مداخلت کی اور نہ ہی ہجرہ شاہ مقیم سے کسی نے سفارش کی۔ ملتان والے پیروں کے بالکے سامنے والی سٹرک سے گزرتے رہے مگر طاہرہ کی طرف کسی نے توجہ نہ دی۔ سرکاریں اپنی جگہ ڈتی رہیں اور طاہرہ اپنی ہم نام قراۃ العین طاہرہ کی طرح بے خوف و خطر میدان میں کھڑی رہی۔ قزوین والی طاہرہ مرتد ہوئی مگر پیچھے نہ ہٹی۔ وہ شادی شدہ اوربچوں کی ماں تھی مگر بہا اللہ کے عشق میں سرشار تھی۔ زندگی کا اصل حسن تو عشق کا رنگ ہی ہے اور یہ رنگ ان گنت رنگوں کا مجموعہ ہے۔ عشق کے رنگ میں رنگنا آسان ہوتا تو سب بے رنگیاں رنگ جاتیں۔ نہ ہیر رانجھے کی بانسری کی کوک پر بے حال ہوتی نہ شیریں ، سسی، صاحباں ،لیلا اور سوہنی بد حال ہوتیں۔ بی بی عنائت نے کہا:۔
جس دل اندر عشق دی بھٹی سو جانے جو سڑدا سینکڑیاں وچ ہک کوئی ہوسی کم نہیں ہر مردا ظالم عشق بے ترس قصائی رحم نہیں اُس رَتی اَگ پریم دی تیز زیادہ سورج وانگرتتی عاشق مردا ہر دم سڑدا جیو تیلے وچ بتی کئی بیچارے سڑگئے سارے جیوں دانے وچ بھٹی کئی ہیراں کئی رانجھے ہوئے روندے گئے تمامی اس منزل وچ سکھ نہ رَتی دن دن بے آرامی کوئی لیلا کوئی شیریں ہوئی کوئی صاحباں کوئی سیاں حال دوہائیاں سبنھاں پایاں خوشیاں کسے نہ رسیاں ہک گھڑے پر تکیہ کر کے سوہنی ملدی تر کے جیوندیاں شوہ کسے نہ تکیا جس تکیا اُس مر کے قزوین والی طاہرہ کا یہی حال تھا ۔ دین ترک کیا ، مرتد ہوئی ، جلا وطن ہوئی اور پھر بصرہ سے شیراز تک نومولود بچے کو سینے سے لگائے صحرانوردی کرتی قزوین جا پہنچی۔
رومی کشمیر میاں محمد بخش ؒ ایسے عاشقوں کا حال بیان کرتے ہیں اور لکھتے ہیں۔ جنہاں عشق بندے دا لگا صبر آرام نہ تنہا سُتے بیٹھے اُتول تکن لٹ کھڑے سن جنہا جس نے قدم اگیرے دھریا سو سڑیا او سڑیا پر اِیتھے سڑ مرن حیاتی اینویں گل نہ اَڑیا لکھ جہاز اسے وچ ڈبے کہڑا پار اتر دا اس ندی دیاں موجاں تک کے دل دلیراں بھردا عاشق بنن سوکھلا نائیں دیکھو نیو پتنگ دے خوشیاں نال جلن وچ آتش موتوں ذرا نہ سنگدے سسی نازک بدن شہزادی تھل مارو وچ وڑدی اس ظالم نوں ترس نہ آیا ویکھ پیاسی مردی
عشق کی ابتداء محبوب کی ایک جھلک ہے اور انتہا فناہ ہے۔ عشق جدائی کے سفر کی پہلی منزل اور جذب کی کیفیت کا پہلا احساس ہے۔ عشق کا نہ تو کوئی مذہب ہے اور نہ مسلک ، نہ زبان ، نہ کلام ، نہ حرف اور نہ ہی حکایت ۔ عشق کی پہلی رسم جدائی ، پہلی منزل جذب ، دوسری کیفیت او رتیسری احساس ہے۔ عاشق تیسری منزل سے عشق کی اصل راہ متعین کرتا ہے اور سفر العشق کا آغاز کرتا ہے۔
قراۃ العین طاہرہ نے بہا اللہ کی جھلک دیکھی تو تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس نے دل کی بانسری کی آواز سنی تو منزل کی طرف چل پڑی ۔ ابلیس نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور بہا اللہ کے ہاتھ میں دے دیا ۔ وہ اللہ کے راستے سے ہٹ کر بہا اللہ کے راستے پر چلتی رہی ۔ وہ بہا للہ کے رنگ میں رنگی تو بے رنگ ہوگئی۔ اس کا باطنی حسن بد صورت ہوا تو ظاہرہ حسن نکھر گیا ۔ یہی حسن دیکھ کر بادشاہ نے کہا ’’بہ گزارید کے روئے زیبا دار ‘‘ جانے دو کتنی حسین ہے۔ مگر عدالت نہ مانی اور سزا کا حکم دے دیا۔ وہ فائرنگ سکاڈ کے سامنے کھڑی ہوگئی اور بہا اللہ کے نام کا کلمہ پڑھ کر گولی کا نشانہ بن گئی۔ درِ دل طاہرہ گشت و ندیدجُز تورا صفحہ بہ صفحہ ، لابہ لا، پردہ بہ پردہ توبہ تو
طاہرہ نے ختم نبوت سے انکار کیا اور مرتد ہوگئی۔ وہ کہتی ہے:۔ ای عاشقان ، ای عاشقان شد آشکار اوجہ حق رفع حجت گردیدھان از قدرت رب الفلق خیزید کا یندم بابہاء ، ظاہر ، وجہ خدا بنگر بصد لطف و صفاء آن روی روشن چون شفق اے عاشقو ، اے عاشقو حق کا چہرہ ظاہر ہوگیا۔ دیکھو رب فلق کی قدرت سے حجابات اٹھ گئے ۔ اٹھ کھڑے ہو کہ اب بہا ء کے ساتھ چہرہ خدا ظاہر ہوا ہے۔ دیکھو شفق کی طرح وہ پر نور وبا صفا چہرہ روشن و تابناک ہے۔
طاہرہ کے اس دعوے کے باوجود اقبال کہتے ہیں:۔ پیش خود دیدم سہ روح پاکباز آتش اندر سینہ شان گیتی گداز میں نے اپنے سامنے تین پاکباز روحوں کو دیکھا جن کے سینے میں دنیا کوجلا دینے والی آتش عشق تھی۔
یہ تین روحیں کِن کی تھیں:۔ غالب وحلاج و خاتون عجم شورہا افگندہ در جانِ حرم اقبال نے کہا یہ روحیں مرزا غالب، منصور حلاج اور خاتون عجم قراۃ العین طاہرہ کی تھیں۔ میں نے طاہرہ ملک سے پوچھا کہ اقبال نے یہ کیوں لکھا ہے۔ کہنے لگی اقبال نے تو قزوین والی طاہرہ پر بہت کچھ لکھا ہے ۔اہل مغرب نے تو اسے ولیّہ ، مومنہ اور مصلح لکھا ہے۔ مغرب نے ہی تو اسے طاہرہ بنایا ہے اور مشرق نے اسے قراۃ العین ، آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے۔ہر طبقہ فکر اور مسلک و مذہب کی اپنی اپنی ضرورتیں ہیں۔ اس کا اصل نام زرتاج تھا۔ زرتاج گل بھی نہ تھا۔ اس کی ہر غزل کا عنوان بہا اللہ ، محمد علی باب اور اُن کے پیروکار ہیں۔ ہندوستان کے کئی شاعروں اور ادیبوں نے اسے شہید لکھا ہے۔ صرف پاکستان میں ہی اس کی شاعری کے کئی درجن ایڈیشن شائع ہوئے اور ہرمذہب کے ماننے والوں نے اسے خراج تحسین پیش کیا۔
میں نے طاہرہ ملک کی توجہ اقبال کی جانب مبذول کروائی تو کہنی لگی یہ اقبال کا ناسوت ہے۔ جبکہ اقبال نے کہا ہے کہ اگر میں نے قرآن سے باہر کوئی بات کہوں تو روز قیامت اللہ مجھے حضور ﷺ کی شفاعت سے محروم کردے۔ یہ بہت بڑا دعویٰ ہے۔ منصور حلاج مجذوب تھااور وہ جذب کی کیفیت میں عین الحق کہا اور پھر ہوش میں آتے ہی انکار کردیتا۔ وہ جذب کی کیفیت سے کیوں نکل جاتا یہ بھی ایک راز ہے۔ شاید یہی کیفیت اقبال کی ہو۔ جذب کی حالت بھی کیفیت کے زمرے میں آتی ہے مگر اصل کیفیت سرور اور سُر میں ہے۔ مجذوب جب سُر میں آتا ہے اور سرور کی کیفیت میں داخل ہو کر عشق حقیقی اور عشق مجازی کے دو راہے پرکھڑا ہو جاتا ہے ۔ سُرور کی حالت میں ہر طالب مجذوب ہوتا ہے مگر وہ اس حال میں بھی اصول کی پاسداری کرتا ہے۔ حلاج اور اقبال سُرور میں آتے تو سُر سے پہلے ہی باہرنکل آتے۔ رومیؒ کی بھی یہی حالت تھی ورنہ اقبال زرتاج کی مداح میں احتیاط کرتے۔ اقبال خوش قسمت تھے کہ ہندوستان میں پیدا ہوئے اگر عرب میں ہوتے تو منصور حلاج کی طرح سزا وار ٹھہرتے ۔
طاہرہ قراۃ العین بہائی مذہب کی آواز تھی۔ بہائی ایک الگ مذہب ہے جس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ بہائیوں کا عقیدہ ہے کہ ہزار سال بعد دین بدل جاتا ہے اور نئے دین کی ضرورت پیدا ہوتی ہے۔ آج اِسی بنیاد پر نیوورلڈ آرڈر اور تہذیبوں کے تصادم کی عمارت کھڑی کی جارہی ہے۔ زرتاج خدا پرست تھی مگر اسلام پسند نہ تھی۔ اُس نے خود کہا:۔
اِی حبیب حُبّ محبوب بہأ جذب فرمااین عبید مبتلا بربساط عزو حدت مستقر ساز از الطاف خود بیحدّومر اے بہأ جو حبیب ہے، حُب ہے اور محبوب ہے۔ اس شیدا بندی کو اپنی طرف جذب کرلے۔ اپنے بے انتہا الطاف سے اُسے وحدت کی معزز بساط پر بٹھا
جلوہ ہای لااحدی احمدی شدملئئلاازحجاب سرمدی طلعت ہا در ہویت مستر کُشت او از نقطئہ با مشتہر احمد ﷺ کے لا محدود جلوے حجاب سرمدی سے چمکتے ہیں۔ طلعت ہا جو ہویت میں پوشیدہ تھی نقطہ ’’با‘‘ کے ذریعے ظاہر ہوگئی۔اقبال نے کہا میرامُحب، محبوب اور حبیب وہ ہی ہے جومُحب اللہ ہے۔ حبیب اللہ اور محبوب اللہ ہے۔ طاہرہ کہتی ہے اے بہأ مجھے اپنے لطف و کرم کے جلوئوں میں جذب کر لے اور مجھے وحدت کی بساط پر بٹھا ۔
وہ کہتی ہے احمد ﷺ کے لامحدود جلوے حجاب سرمدعی سے چمکتے ہیں مگر اللہ کا اصل چہرہ جو نور کے پردے میں پنہا تھا نقطہ بہا کی صورت میں عیاں ہوگیا ۔ بہائی ایک الگ مذہب ہے، الگ فرقہ ہے، الگ سوچ و فکر ہے۔ محض شاعرانہ تخیل اور ادائے سخن اور ظاہری حسن کی بناء پر اُسے پاکیزہ روح کہنا درست نہیں۔
طاہر ملک کہنے لگی کہ میں نے اقبالیات کے مشہور دانشور اور محقق ڈاکٹر تنولی سے یہی سوال کیاتو انہوں نے گول مول جواب دے کر دوسرے کالر کی طرف توجہ کرلی، دوبارہ کال کی تو 92چینل کے آپریٹر نے کہا کہ اپنے سوال کے علاوہ آپ نے یہ بھی پوچھنا ہے کہ اقبال اور حافظ شیرازی کے درمیان فکری اختلاف کیوں ہے۔ اقبال نے یہ کیوں کہا کہ حافظ کا دیوان سنبھال کر رکھ دو پڑھنے سے اجتناب کرو۔ ڈاکٹرتنولی نے دوسرے سوال کا مفصل جواب دیا اور پہلے کو اگنور کردیا۔ اسی طرح میں نے حضرت غنی کاشمیریؒ جنھیں ملاں طاہر کہا جاتا ہے کے متعلق سوال کیا تو سارے پینل نے یک زبان ہو کر کہا ہاں ۔ملاں طاہر کی اقبال نے بہت تعریف کی ہے۔پیر صاحب گولڑہ شریف حضرت نصیر الدین نصیرؒ مرحوم اکثر اُن کے اشعار پڑھتے تھے۔ اسی پر بات ختم ہوگئی۔
شاعروں کے ایک جلسے میں یہی بات رکھی تو نامور شعراء نے کہا کہ وہ عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑتی رہی۔ میں نے کہا کہ ُاس کی شاعری میں تو سوائے بہأ اللہ اور باب کے کسی کا ذکر ہی نہیں۔ اس پر ایک شاعرہ ناراض ہوگئیں۔ پھر خود ہی کہنے لگی یہی تو ہوتا ہے، تمہارے ساتھ کیا ہوا؟ میں نے طاہرہ ملک سے پوچھا۔ کچھ ہوتا تو تمہارے سامنے ہوتا۔ وہی ہوا جو غالب کے ساتھ ہوا۔ اُسے مشکل سے پنشن ملی تھی اور مجھے نوکری مل گئی ہے۔ شاعروں، عاشقوں اور عاجزوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ شاعر اگر عاشق اور عاجز ہو تو ولائت کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے۔ عاشق کے عشق کی ابتداء عاجزی سے ہوتی ہے اور شاعری عشق کی صدا بن جاتی ہے۔ طاہرہ کی شاعری میں عشق کی صدا تھی مگر اس میں نہ دوا تھی اور نہ ہی دعا تھی۔ دوا اور دعا صوفی شاعروں کا خاصا ہے عام شاعروں کا نہیں۔ عام شاعروں کو پبلسٹی کی ضرورت رہتی ہے۔ وہ مشاعروں کے محتاج اور خاص شاعروں کی زمین سے شاعری کے تنکے اُٹھا کر اپنے شعروں کا جھونپڑا بناتے ہیں اور پھر اُسے محل کا نام دے کر اس کی تشہیر کرتے ہیں۔
وہ کیسے۔ میں نے پوچھا ؟ کوئی مشاعرہ ایسا نہیں ہوتاجس کا آغاز چاپلوسی سے اور انجام روٹی سے نہ ہو۔ کوئی کہتا ہے یہ اقبال کی زمین ہے ، کوئی غالب اور شکیب اور فیض و فراز کا نام لیتا ہے مگر سعدیؒ ،حافظؒ ، میاں محمد بخشؒاور ملاں طاہرہ غنی کاشمیریؒ کا نام نہیں لیتا۔ جامیؒ ، رومیؒ اور عطارؒ کا تو کسی کو نام ہی نہیںآتا۔
وجہ میں نے سوال کیا۔ اُن کی شاعری میں درد تھا، دعا تھی اور دوا بھی تھی۔ وہ حکیم ، اُستاد، مرید اور مرشد تھے۔ وہ درد کو سمجھتے تھے اور دعا کے ساتھ دوا بھی دیتے تھے۔
کہنے لگی کمرشل شاعری اور حکیمانہ شاعری میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہ ڈالروں، بوتلوں پبوں اور کلبوں کی شاعری ہے۔ شاعروں کی طرح شعروں کو بھی بیماریاں لاحق ہیں۔ اچھا شاعر وہی ہوتا ہے جو یورپ اور امریکہ تک مشاعرے پڑھنے جائے ورنہ بیکار، بیمار اور بے حال ہی رہتا ہے۔
وہ الگ تھلگ اور فاقہ مستی میں رہتے تھے۔ اُن کی شاعری مشاہداتی اور معنوی تھی۔ اُن پر شاعری کا نزول ہوتا تھا۔ اب شاعری کامول لگتا ہے۔ مولانا روم ؒ نے کوئی کتاب نہیں لکھی۔ جو وزن جدائی میں کہتے گئے لوگ لکھتے رہے اور مثوی معنوی بن گئی۔ اقبال ؒ نے غنی ؒ اور استاد رومیؒ کی شاگردی اختیار کی تو اقبال ؒ باکمال ہوگیا۔
وہ الگ تھلگ اور فاقہ مستی میں رہتے تھے۔ اُن کی شاعری مشاہداتی اور معنوی تھی۔ اُن پر شاعری کا نزول ہوتا تھا۔ اب شاعری کامول لگتا ہے۔ مولانا روم ؒ نے کوئی کتاب نہیں لکھی۔ جو وزن جدائی میں کہتے گئے لوگ لکھتے رہے اور مثوی معنوی بن گئی۔ اقبال ؒ نے غنی ؒ اور استاد رومیؒ کی شاگردی اختیار کی تو اقبال ؒ باکمال ہوگیا۔
غالب ، فیض اور فراز کے اپنے غم تھے۔ غم جان اور غم جاناں میں فرق ہے۔ جیسے فراق اور فریاد میں فرق ہے۔ مولانا رومؒ کہتے ہیںبنسلی کی فریادسن وہ فراق کی کیفیت میں ہے اور جدائی کے غم میں فریاد کرتی ہے اور لوگ اسے گیت سمجھتے ہیں۔وہ کہتی ہے کہ جب سے وہ کُل سے جُز بنی ہے وہ اپنی اصل سے جدائی کے غم میں فریاد کرتی ہے مگر کوئی سمجھنے والا ہی نہیں۔ ہر کسے از ظن خد و شد یار من وز درونِ نہ جست اسرار من
بی بی عنائیت نے بھی یہی کہا مگر کسی نے سنا ہی نہیں۔ پھر دور دیسوں میں کسی نے اسے سنایا تو کشمیر کے پہاڑوں اور پتھروں نے بھی اسے پڑھا تو چیڑ ، چنار اور دیودار کے درختوں نے جھوم جھوم کر اسے سنا۔ بی بی عنائیت کا کلام کاغذ اور قلم کی محتاجی سے آزاد ہو کر دلوں پر پیوست ہوگیا۔ ناخواندہ عورتوں نے اسے حفظ کیا اور تنہائیوں اور جدائیوں کا نغمہ بنا پر اپنی اپنی دھنیں ترتیب دیں۔ جو مرلی دیاں لمیاں کوکاں کردی بین بیچاری پچھلی منزل یاد کریندی تیشہ ستھرا آری کپ کلہاڑی جندر چاہڑی کیتے پھیر سیاری سب جگ غرضی کوئی نہ دردی رو وے زخماں ماری وہ نصیحت کرتی ہیں:۔ جس دل درد عشق دانائیں اسدا توں اعتبار نہ کھائیں بن آتش نہ پکدی چاہ بھلا معراجہ سندا جا نہ تو جاگی صبح سویرے نہ تو کتے نہ تو ایڑے کیونکر کھڑ سیں داج بنا بھلا معراجہ سندا جا بی بی عنائیت کرے دعائیں اللہ پاک فضل دا سائیں حب نبیﷺ وچ کرے فنا بھلا معراجہ سندا جا
طاہرہ ترین اور میں نے ایک ہی دن لاء کالج میں داخلہ لیا ۔ وہ کوئٹہ کی رہنے والی تھی اور شکل و صورت سے ہزارہ لگتی تھی۔ کالج میں ہر طالب علم کی نشست مخصوص تھی۔ میں اور طاہرہ ترین ساتھ ساتھ بیٹھتے تھے۔ تین ماہ تک ہم نے ہر لیکچر اٹینڈ کیا، نوٹس بنائے اور کتابیں پڑھیں اور وکیل استادوں سے سوالات بھی کئے۔ انہیں دنوں کچھ بڑے وکیلوں کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ججز کے عہدوں پر تعینات کیا گیا تھا۔ اس دن ایک سینئر وکیل صاحب لیکچر دینے روسٹرم پر آئے تو طاہرہ ترین نے کھڑے ہو کر کہا جناب لیکچر سے پہلے میری بات سن لیں۔
وکیل صاحب کچھ پریشان ہوئے تو طاہرہ نے کہا کل جن لوگوں کو اعلیٰ عدلیہ کا حصہ بنایا گیا ہے کیا وہ اس منصب کے حقدار ہیں۔ اس سے پہلے کہ وکیل صاحب جواب دیتے طاہرہ نے ان کے نام لے کر ان کی وکالت پر لیکچر دیا اور کہا جناب وکالت اور تجارت میں فرق ہے ۔کسی خاص شخص کی خدمت کے عوض اگر عدلیہ جیسے متبرک شعبے میں اعلیٰ مقام ملتا ہے تو قانون پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جو قانون لاقانونیت کو فروغ دیتا ہے اسے پڑھنا لاقانونیت کی تائید کے مترادف ہے۔ طاہرہ ترین کی تقریر ختم ہوئی تو وکیل صاحب نے کہا ویری گڈ ۔ بہرحال قانون کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے اور عدلیہ کے بغیر بھی گزارہ نہیں۔
اگلے دن میں کالج گیا تو وہ باہر بیٹھی تھی ۔ وہ جب سے کالج میں آئی تھی ایک چھوٹے سے فلاسک میں دو کپ چائے لے کر آتی تھی۔ وہ کینٹین کی چائے نہ پیتی تھی۔ بریک میں وہ فلاسک کے کپ میں پہلے مجھے چائے دیتی اور پھر خود پیتی ۔ اس کی چائے کڑوی اور چینی کے بغیر ہوتی ۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگی چینی یا شکر اضافی چیز ہے ۔یہ چائے کے اصل ذائقے سے الگ ہے اور محض احساس ہے۔ انسان پہلے ہی بہت حساس ہے۔ فالتو ذائقے اور لذتوں نے اسے بے حس کر دیا ہے۔ وہ اپنے مقصد سے ہٹ کر بے مقصد زندگی کا عادی ہو کر حقیقت آشنائی کی حِس کھو بیٹھا ہے۔
چائے کے بنیادی اجزاء پانی اور پتی ہیں مگر آگ کے بغیر اس میں چاہت پیدا نہیں ہوتی۔ آتش عشق نہ ہو تو چاہت کیسی۔ یہی مسئلہ چاہ کا ہے۔ اکیلے چائے پینے سے صرف چاہت کا احساس جنم لیتا ہے اور مل کر چائے پینے سے احساس چاہت میں بدل جاتا ہے۔ چاہت یادوں اور فریادوں کا سمندر ہے۔ اسے کچے گھڑے پر نہیں عشق کی قوت سے عبور کیا جاتا ہے۔ ’’عشق سمندر اللہ ھو‘‘
کل وہ لیکچر دے کر چلی گئی تھی۔ چائے پیئے بغیر اٹھی اور اپنا بیگ لے کر باہر نکل گئی۔ باقی لوگ طاہرہ کے لیکچر پر تبصرہ کرنے لگے۔ کسی نے بھی اس کی باتوں کو پسند نہیں کیا۔ خواتین نے کہا عجیب عورت ہے ۔کسی کو لفٹ ہی نہیں کراتی ، گمنڈی ہے۔ کسی نے کہا کوئٹہ کی ہے یہ لوگ سخت طبعیت کے ہوتے ہیں۔ ایک صاحب نے پوچھا آپ کے ساتھ بیٹھتی ہے کبھی کوئی بات بھی کرتی ہے۔
کوئی فالتوں بات نہیں کرتی۔ سلام کرتی ہے۔ چائے پیش کرتی ہے ۔کہتی ہے آرام سے پیو ۔ کوئی جلدی نہیں۔ چائے پینے میں جلدی کرنا چائے کے آداب کی خلاف ورزی ہے۔ وہ صرف چائے، چاہت ، اصول و آداب کی بات کرتی ہے۔ بولے سائیکو لگتی ہے۔ شکر ہے میرے ساتھ نہیں بیٹھتی ۔
اس دن میں نے اسے سلام کیا تو کہنے لگی آجائو میں تمھیں ملنے آئی ہوں پڑھنے نہیں۔ میں نے رات کو اٹینڈنس کو فون کر کے بتا دیا تھا کہ آئندہ پڑھنے نہیں آئوں گی۔ میرا کزن میں جس کے گھر ٹھہری ہوں وہ فیس جمع کروا دے گا۔ میرا مائیگریشن سرٹیفکیٹ اسے دے دینا۔ میں نے اسلام آباد سے کوئٹہ کی سیٹ بک کروالی ہے۔ دو دن اسلام آباد گھوموں پھروں گی اور پھر کوئٹہ چلی جائوں گی۔
پھر کیا کرو گی۔ میں نے پوچھا۔ بہن کے پاس سنگا پور جائوں گی۔ بلانکو کورٹ میں شاپنگ کروں گی، مصطفیٰ کے ہوٹل سے دال چاول اور کڑی چپاتی کھائوں گی، پیدل چلوں گی ۔اگر وہاں دل لگ گیا تو کسی یونیورسٹی میں داخلہ لوں گی۔تاریخ ،فلسفہ اور سیاسیات پڑھوں گی۔اور پھر پڑھائوں گی۔
ہاں آج میں صرف تمہارے لیے آئی ہوں ۔ کل تمیں چائے پلانا بھول گئی تھی۔ لو چائے پیو۔ میں چائے پی رہا تھا تو وہ کہنے لگی چائے میں دودھ بھی اضافی ہے۔ صرف رنگت کے لیے ہے۔ زیادہ ہو تو نام ہی بدل جاتا ہے’’دودھ پتی‘‘ کم ہو تو ذائقہ بدل جاتا ہے ’’بدمزگی‘‘
چائے ہو یا چاہت ۔زندگی کے ہر ڈسپلن میں اعتدال ضروری ہے اور یہی عدل ہے۔ اعتدال کے بغیر عدل ممکن ہی نہیں۔ اگر ہماری زندگی میں اعتدال آجائے تو عدالتوں کی ضرورت ہی نہ رہے۔ جب عدالتیں نہ تھیں تو عدل تھا اور اس کی وجہ اعتدال تھا۔ اب عدالتوں کی بھرمار ہے اور ججوں کے انبار ہیں۔ ہر طرف وکیلوں کی یلغار ہے مگر عدل کا نام و نشان ہی نہیں۔ چونکہ معاشرے اور ریاست میں اعتدال باقی نہیں رہا۔
میں نے چائے ختم کی اور کپ واپس کیا ۔ اس نے کپ فلاسک پر رکھا اور اسے اپنے بیگ میں ڈال دیا۔ تم چائے نہیں پیو گی؟ میں نے پوچھا۔ آج ایک ہی کپ لائی تھی ۔کل میں نے گھر جا کر اکیلے پی تھی ۔یہ تمہارے حصے کی ہے۔ اگر کل ہم اکھٹے پی لیتے تو میں آج نہ آتی ۔پھر تمیں بتانا بھی تو تھا کہ میں جارہی ہوں ۔
میں بھی جا رہا ہوں ۔ کہاں۔ اس نے پوچھا ۔ گلگت۔ میری پوسٹنگ ہو گئی ہے ۔ میں نے بھی ایک دوست کو بتا دیا ہے کہ میرا مائیگریشن سرٹیفکیٹ بھجوا دینا۔ میں یہی بتانے کالج آیا تھا۔
کہنے لگی میری چائے یاد رکھنا ۔ یہ درویشوں اور ولیوں کی ایجاد ہے۔ جب ان پر نیند غلبہ کرتی تو وہ پانی ابال کر پیتے تو غلبہ ختم ہو جاتا۔ ابتداء میں مشاہدے کے لیے مراقبہ ضروری ہے۔ شیطان نیند کے غلبے سے مراقبے پر حملہ کرتا ہے اور وسوسوں سے مشاہدے کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔
پھر کہیں سے پتے اڑ کر آئے اور کسی چینی درویش کے ابلتے پانی میں گر گئے ۔درویش نے یہ پانی پیاتو غلبہ ختم ہوگیا اور طبیعت پرسکون ہوگئی۔ درویشوں اور سادھوں کی چائے مشہور ہوئی تو عام لوگوں میں چائے کا رواج ہوگیا۔ اصل لفظ چائے نہیں بلکہ چاہ ہے ۔ چاہت اور چاہ ہم معنی ہیں۔ دونوں میں حُب و محبت، قربت اور کشش ہے۔ اس کا تعلق روح سے ہے مادے سے نہیں۔
میرا چوتھا روم میٹ نعم الوکیل تھا۔ نہ سادہ، نہ چالاک ، نہ مکار و عیار ۔اس کی زندگی میں اعتدال تھا۔ سچ بولتا تھا۔ کسی صلے کی امید نہ رکھتا تھا۔ No expectations، وہ تقدیر کا قائل تھا اور اللہ کے سوا کسی سے امید نہ باندھتا تھا۔ اس کی زندگی میں جتنی پریشانیاں آئیں انہیں خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ وہ ہر کام میں اللہ سے رابطے کا قائل تھا۔ Acceptanceاس کی زندگی کا اہم جُز تھا۔
45سالہ نعم الوکیل بارہ بچوں کا باپ ہی نہیں بلکہ نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں والا بھی تھا۔ سولہ سال کی عمر میں شادی ہوئی تو ہر سال آنگن میں ایک پھول کھلتا رہا۔ پھول پھلوں میں بدلتے رہے اور بیجوں سے نئے پودے اگے اور درخت بنتے گئے۔ یوں راولپنڈی کے ایک ویران کونے میں نعم الوکیل اور اس کے بہن بھائیوں نے سائیہ دار ، پھلدار اور سدا بہار درختوں کا باغ لگالیا۔
نعم الوکیل کے باپ کے بھی بارہ بچے تھے۔ وہ مردان میں کسی بڑے خان کا ملازم تھا۔ اس کی زمینوں پر کام کرتاتھااور فصل کے فصل اسے پیٹ بھرنے کے لیے غلہ تو مل جاتا تھا مگر دوا دارو اور کپڑے لتے کے لیے اسے الگ سے محنت کرنا پڑتی تھی۔ نعم الوکیل کی دادی اور ماں بھی کام کرتی تھیں اور زندگی کی گاڑی کو دھکا لگا رہی تھیں۔ کہنے لگا۔ صاحب۔ میں اپنی کہانی ہر رات سونے سے پہلے دل میں دھراتا ہوں اور جب وقت ملے اپنے بچوں کو بھی سناتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ اپنی اصل سے کٹ کر نا شکرے ہو جائیں اور تکبر کر بیٹھیں ۔ میں ڈرتا ہوں ۔ بندے اور ربّ کے درمیان کوئی فاصلہ ہی نہیں ۔وہ ہر وقت دیکھ رہا ہے، سن رہا ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ وہ جب میری طرف دیکھے تو میں اس کا حکم بردار بنوں۔ وہ جب مجھے سنے تو میں اس کا شکر گزار رہوں۔ میں یہی بات بچوں سے بھی کرتا ہوں۔
کہنے لگامیرا ماموں آسودہ حال تھا۔ اس کی ذاتی زمین اور گھر تھا۔ میں صبح مسجد میں قرآن پاک پڑھنے جاتا تو ماموں کے گھر سے پراٹھوں کی خوشبو آتی۔ میں نے کبھی پراٹھہ نہ کھایا تھا۔ کبھی دل کرتا کہ ممانی سے ایک پراٹھہ مانگ لوں مگر پھر باپ کی بات یاد آجاتی۔ وہ کہتا تھا بیٹا اللہ نے ہاتھ محنت کے لیے دیے ہیں دوسروں کے آگے پھیلانے کے لیے نہیں۔ ہاتھ صرف اللہ کے سامنے پھیلاتے ہیں انسانوں کے سامنے نہیں۔ جو انسانوں کے سامنے پھیلاتا ہے اللہ اس کے ہاتھوں سے برکت چھین لیتا ہے۔ یہ سوچ کر میں خوفزہ ہو جاتا اور ماموں کے گھر سے پراٹھہ نہ مانگتا۔ ایک شام ممانی ہمارے گھر آئیں اور جاتے ہوئے کہہ گئیں کہ صبح میں بچوں کے لیے پراٹھے بجھوائوں گی ۔صاحب وہ رات خوشی کی تھی ۔ میں پراٹھے کی خوشی میں سو نہ سکا اور صبح کا انتظارکرتا رہا ۔اسی خوشی سے سرشار مسجد گیا اور پھر دوڑتا ہوا گھرآیا۔ میری بڑ ی بہن نے ایک نوالے کے برابر پراٹھے کا ٹکڑا میرے ہاتھ میں دیا تو میں نے اٹھا کر پھینک دیا۔ میری ماں نے کہا غصہ کیوں ہوتے ہو۔ بھائی کے گھر سے ایک ہی پراٹھہ آیا تھا ۔اسے دس ٹکڑوں میں بانٹ کر بچوں کو دیا ہے۔ تمہارا حصہ اتنا ہی تھا۔
میں دوڑتا ہوا گھر سے نکلا اور ماموں کے گھر کے قریب جا کر دیکھا کہ ماموں، ممانی اور ان کے بچے ناشتہ کررہے تھے اور ہنس رہے تھے۔ ان کے سامنے بہت سے پراٹھے رکھے ہوئے تھے۔ میں ماموں کے گھر داخل نہ ہوسکا۔ باپ یاد آگیا۔ بیٹا کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے برکت اٹھ جاتی ہے۔ ہاتھ تو صرف اللہ کے سامنے پھیلاتے ہیں۔ وہ خزانوں کا مالک ہے۔ اس کی مرضی ہے۔ جو چاہے اور جس کو چاہے عطا کردے۔ میں نے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا اور واپس آگیا۔
ایک دن میرے والد ، والدہ اور دادی نے مردان سے ہجرت کا فیصلہ کیا۔ دادی نے کہا بیٹا پہلے خان کے پاس جائو اور اس سے اجازت لو ۔ تم نے اس کا قرض بھی دینا ہے۔ میرا والد خان کے پاس گیا اور اجازت لی اور قرض کی رقم واپس کرنے کا وقت لے کر راولپنڈی آگیا۔ ان دنوں پیرودائی کے قریب کچھ عمارتیں تعمیر ہو رہی تھیں جہاں اسے مزدوری مل گئی۔
چھ ماہ تک وہ دن رات کام کرتا رہا ۔ میراباپ قد آور اور صحت مند تھا۔ چھ ماہ بعد وہ واپس آیا اور خان کا قرض ادا کر کے ہمیں اپنے ساتھ راولپنڈی لے گیا۔ ہمارا ابتدائی مسکن پیرودائی کے قریب ایک کچی بستی میں بوسیدہ مکان تھا۔ مکان کا کرایہ معمولی تھا چونکہ اس میں بجلی، پانی، گیس کی سہولت نہ تھی۔ ہم نے مل کر مکان کی حالت ٹھیک کی اور والد نے سب بیٹوں کو مزدوری پر لگا دیا۔ میں چھوٹا تھا اور میرے ذمے باپ کو کام والی جگہ پر کھانا پہنچانا تھا۔
میں باپ کو کھانا دینے جاتا تو راستے میں لوگوں کو سائیکلوں پر آتے جاتے دیکھتا ۔میرا دل کرتا تھا کہ میرے پاس سائیکل ہو اور میں سائیکل پر آیا کروں۔ میں نے والد سے بات کی تو اس نے فوراً حامی بھرلی اور میں خوش ہوگیا۔ ٹھیکیدار اسے مہینے کے آخر میں تنخواہ دیتا تھا اور وہ ہر ماہ کہتا کہ اس بار خرچہ زیادہ ہوگیا ہے اگلے ماہ سائیکل کا بندوبست کردوں گا۔ مہینے گزرتے رہے اور میں سائیکل کا انتظار کرتا رہا مگر خرچے بھی بڑھتے رہے۔ اس دوران والد مجھ سے پوچھتا۔ نعم الوکیل تم کونسی سائیکل لوگے۔ اس کا رنگ کیسا ہوگا۔ نئی لوگے یا پرانی۔ پھر کئی ماہ گزر گئے اورہم دونوں سائیکل کے متعلق باتیں کرتے رہے۔ آخرایک ماہ کے آخر میں اس نے مجھے پندرہ روپے دیے اور کہا اپنی ماں سے بات کرو شاید وہ کچھ بندوبست کردے اور تمھیں سائیکل مل جائے۔
میں ماں کے پاس گیا اور اسے پندرہ روپے دیے ۔ماں نے میرے سر پر پیار دیا اور سینے سے لگا کر رونے لگی۔ کہنے لگی بیٹا تیرا باپ جو کماتا ہے بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی پوری ہوتی ہے۔ سب سے پہلے میں دوکاندار کا قرض ادا کرتی ہوں اور پھر مکان کا کرایہ دیتی ہوں۔ دعائیں کرتی ہوں کہ کوئی بچہ بیمار نہ ہو جائے ۔دوائوں کے پیسے کہاں سے لائوں گی۔
میں ماں کی باتیں سن کر ناامید ہوگیا ۔اگلے روز میں باپ کو کھانا دینے تو گیا مگر آرام سے چلتا گیا۔ دوڑ کر اسے گرم کھانا نہ دیا۔ باپ نے پوچھا آج دیر سے آئے ہو۔ میں نے کہااب ایسے ہی آئوں گا۔ آپ نے سائیکل کا وعدہ پورا نہیں کیا ۔ میں گرم کھانا نہیں لائوں گا۔ صاحب ۔
والد نے مجھے گلے لگا کر پیار کیا اور دیر تک روتا رہا۔ اُس نے کھانا کھایا اورکہنے لگا وکیل جیسے تیری مرضی ۔ آرام سے آیا کرو۔ کھانا ٹھنڈا ہو یا گرم اس سے فرق نہیں پڑتا ۔ کھانا حلال کا ہو۔ تیری ماں کے ہاتھ سے پکا ہوا اور تیری دادی کی دعائوں کا ذائقہ شامل ہو۔ یہ بڑی نعمت ہے۔ مجھے اس کی باتیں سمجھ نہ آئیں۔ مجھے سائیکل نہ ملنے کا غم تھا۔ چلنے لگا تو پھر کہا۔ وکیل اللہ تمھیں بہت کچھ دے گا۔ پتہ نہیں میں دیکھوں گا یا نہیں۔ تب وہ جوان آدمی تھا۔ صحت مند اور مضبوط جسم والا مزدور تھا۔ میں سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ وہ جلد ہی مر جائے گا۔ مجھے اس کی یہ بات بھی سمجھ نہ آئی اور میں سائیکل کے متعلق سوچتا رہا۔
ایک دن ٹریفک کے حادثے میں وہ ہم سب کو چھوڑ کر اگلی دنیا کو چل دیا۔ اب میں تھوڑا بڑا ہوگیا تھا۔ بھائیوں کے ساتھ مزدوری کرنے لگا۔ چھ اینٹیں مشکل سے اٹھاتا تھا۔سیمنٹ سے بھری تنگاری اٹھاتا تو گردن کانپنے لگتی۔ وقت گزرتا گیا اور اینٹوں کا بوجھ بڑھتا گیا۔ تنگاری کا وزن ہلکا محسوس ہونے لگا اور گردن مضبوط ہوتی گئی مگر سائیکل ذہن کے کسی گوشے میں چلتی رہی۔
میں نے ماں سے اجازت لے کر پیر ودائی اڈے پرسائیکلوں کی دکان پر نوکری کرلی ۔ میں صبح آکر سائیکل شاپ صاف کرتا ۔ سب چیزوں کو اپنی اپنی جگہ رکھتا اور مالک کے آنے سے پہلے شاپ پر بیٹھ جاتا۔ وہ میرے کام سے خوش تھا اور میں سائیکلیں دیکھ کرخوش تھا۔ میں پرانی سائیکلیں صاف کرتا ۔پنکچر لگاتا اور پرانے پرزے بتدیل کرتا۔ مجھے سائیکل دیکھ کر خوشی ہوتی۔ یوں لگتا جیسے سائیکلیں بھی مجھ سے پیار کرتی ہیں اور مجھے مل کر خوش ہوتی ہیں۔ سائیکل سے میرا پرانا رشتہ تھا۔ سائیکل میری آرزو تھی ، میرا پیار تھا۔ میں نے مالک سے اجازت لی اور رات دیر تک دکان کھولے رکھتا۔
صاحب میں اپنی مزدوری کے پیسے اماں کو دیتا مگر تھوڑے سے بچالیتا ۔سائیکل کے لیے۔ پھر میں نے تین سو روپے کی ایک پرانی سائیکل لی اور پھر اسے آہستہ آہستہ مرمت کرکے، نئے پرزے ڈال کر نیا کرلیا۔ سائیکل شاپ پر کام کرنے کا مقصد سائیکل کا حصول تھا۔ میں نے مالک سے اجازت لی اور پھر سائیکل پربیٹھ کر دور دور تک مزدوری کرنے جاتا۔ پہلے مستری کی شاگردی اختیار کی اور تیشی کرنڈی کا کام سیکھا ۔ٹھیکیدار میرے کام سے خوش ہوتے تھے ۔میں اچھا مستری تھا۔ میں نے بڑے بھائیوں کو بھی کام سکھایا تو ہماری ٹیم بن گئی۔ بھائیوں کو کام پر لگا کر میں نے پلمبنگ ، الیکٹریشن اور ٹائل کا کام بھی سیکھا اور پھر بھائیوں کو بھی سکھایا۔
کام سیکھنے کے بعد ہم نے مکانوں کے ٹھیکے لینے شروع کردیے تو لوگوں کو ہمارا کام پسند آیا۔ ہم پٹھان مستری مشہور ہوگئے۔ مظفرآباد، مری ، سوات اور ملتان تک بڑے بڑے لوگوں کے مکان تعمیر کیے اور پھر حاجی کیمپ کے قریب زمین لے کر باری باری سب بھائیوں اور بہنوں کے لیے الگ الگ ڈبل سٹوری مکان تعمیر کیے۔ باپ کی نصیحت پر عمل کیا اور کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا ۔ اللہ نے ہمارے ہاتھوں میں برکت ڈالی تو ماں اور دادی کی دعائوںکے سہارے ہم شکر گزاری کے قابل ہوگئے۔ میں اپنے بھائیوں اور بچوں کو اکثر یاد دلاتا ہوں کہ شکر گزاری کا دامن نہ چھوڑیں ورنہ کیا پتہ زندگی کی گاڑی کسی ویرانے میں رک جائے۔ قدم قدم پر غربت، ندامت ، تکبر اور رعونت کے اسٹیشن ہیں۔ صاحب مجھے ڈر لگتا ہے نئی گاڑیوں سے ، نئے مکانوں سے، تازہ گرم کھانوں سے ، قیمتی اور نئے ماڈل کی سائیکلوں سے ،پراٹھوں اور پکوانوں کی خوشبو سے، بھوک کی اشتہا سے اور نئے کپڑوں سے ۔ میں اپنے بیٹوں کے استعمال شدہ کپڑے پہن لیتا ہوں ۔ وہ کہتے ہیں بابا لوگ کیا کہیں گے ۔میں کہتا ہوں اللہ کیا کہے گا۔ ہر نئی اور قیمتی چیز میں تکبر اور مقابلے کی بو آتی ہے۔ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی سوچ لیتا ہے کہ میری نئی اور قیمتی چیز دوسروں کے مقابلے میں اچھی ہے۔ پرانی اور استعمال شدہ چیزوں میں مقابلہ نہیں ہوتا۔ نوے فیصد سے زیادہ لوگ ایسے ہی ہیں اور ایسی ہی چیزیں استعمال کرتے ہیں۔
میں نے آخری بار اسے اسلام آباد ائیر پورٹ پر دیکھا ۔ جمعہ خان، طاہر خان، اور نعم الوکیل نے میرا سامان کنوئیر بلٹ سے اتارا اور ٹرالی پررکھ کر الوداعی ملاقات کی۔ ملک نوید نظر نہیں آئے ۔وہ خاص آدمی تھی کئی خواص کی بھیڑ میں کھو گئے۔ چاچا سجاد نے آواز دے کر اپنی طرف متوجہ کیا۔ وہ بیٹھا ہوا تھا۔ شاید ٹانگ میں درد تھا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور گلے لگایا۔ آج وہ بہت خوش تھا۔ پوچھا آج بیگم تو ضرور آئی ہوگی۔ چاچا شرما گیا۔ کیا پتہ بچے لے آئے ہوں مگر ہمارے دیہاتوں میں ایسا رواج نہیں۔ صاحب خدا حافظ۔
نعم الوکیل نے بھی طاہرہ ترین کی طرح کہا۔ صاحب جیسے ہو ایسے ہی رہنا زندگی آسانی سے گزر جائے گی۔ ہمیں اپنی دعائوںمیں یاد رکھنا۔ لے او یار حوالے رب دے میلے نی چار دناں دے اس دن عید مبارک ہوسی جس دن فیر مِلاںگے چنگی مندی سجناں اندر سہ واری ہو جاندی