یہ لڑکا کون ہے

مرحوم ائیر مارشل اصغر خان کے حوالے سے روزنامہ نوائے وقت میں ایک مضمون شائع ہوا تھا۔مضمون نگار نے لکھا کہ ملتان میں مرحوم مفتی محمود کے گھر سیاستدانوں کی ایک بیٹھک تھی اور نوجماعتوں کے اتحاد میں شامل چوٹی کے سبھی سیاستدان مولانا مفتی محمود کے گھر موجود صلاح مشورہ کر رہے تھے ۔ اس دوران ایک موٹا تازہ جوان بار بار کمرے میں آتا اور تھوڑی دیر کھڑا رہتا اور پھر باہر چلا جاتا ۔مفتی صاحب کو یہ سب اچھا نہ لگا اور نوجوان کو قریب بلا کر خوب ڈانٹا اور ایک محافظ کو ہدایت دی کہ اگر یہ لڑکا پھر اندر آنے کی کوشش کرے تو اس کی پٹائی کرو۔

مفتی صاحب کو غصے میں دیکھ کر کسی نے پوچھا کہ یہ لڑکا کون ہے ۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ اس کا نام فضل الرحمن ہے اور بدقسمتی سے یہ میرا بیٹا ہے۔یہ لڑکا خفیہ ایجنسیوں سے پیسہ لے کر میری مخبری کرتا ہے اور میری سیاسی زندگی اور سیاستدانوں سے میل ملاقات پر نظر رکھتا ہے ۔سب جانتے ہیں کہ نو جماعتی اتحاد بھٹو حکومت کے خلاف بنا تھا مگر بھٹو حکومت کے خاتمے پر کسی سیاست دان کے ہاتھ کچھ نہ آیا اور ملک میں مارشل لاء لگ گیا

اگر نوجماعتی اتحاد کی خبریں حکومتی اداروں کو بیچنے والا لڑکا واقعی سچی خبریں دے رہا تھا تو وہ فوج اور جناب بھٹو کے خفیہ اداروں کا ایجنٹ تھا ۔یہ کہنے میں حرج نہیں کہ لڑکا ٹرپل ایجنٹ تھااور ایسے ایجنٹ کبھی قابل بھروسہ نہیں ہوتے۔ لڑکا ایک طرف نو جماعتی اتحاد میں پھوٹ ڈلوانے کا باعث بنا اور دیگر جماعتوں کو مفتی صاحب سے بد ظن کردیا۔ وہ فوجی اداروں کو بھی اطلاعات فراہم کرتا تھا اور پیپلز پارٹی اور بھٹوحکومت کی منصوبہ بندی سے آگاہ کرتا تھا ۔اسی طرح وہ فوج سے حاصل شدہ خبروں سے بھی سویلین حکومت کو آگاہ کرتا اور مال کماتا تھا۔

خفیہ اداروں کا اصول ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایجنٹوں کو جعلی معلومات فراہم کرتے ہیں اور انہیں ٹیسٹ کرتے ہیں کہ کیا یہ ڈبل ایجنٹ تو نہیں ۔ اگر یہ بات ثابت ہو جائے تو وہ ایسے ایجنٹ کو بلیک لسٹ کرنے کے باوجود اسے استعمال کرتے رہتے ہیں کبھی الگ نہیں کرتے۔

مفتی صاحب کی رحلت کے بعد لڑکا مولانا کے ٹائیٹل سے خود والد کی مسند پر فائیز ہوا اور حکومتوں کے خلاف کئی اتحادوں کا معاون و مدد گار بنا۔ سوائے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے ان اتحادوں سے کوئی حکومت تو نہ گری مگر لڑکے نے بہت سے مالی اور سیاسی فائدے ضرور حاصل کیے۔ حکومت فوجی ہو یا جمہوری وہ ہر حکومت میں شامل رہا اور وزارتوں کے مزے بھی لیے۔

کہتے ہیں کہ بچپن کی عادتیں انسانی سرشت میں سما جاتی ہیں اور کبھی زائل نہیں ہوتیں۔ ایک بار کا ایجنٹ ہمیشہ ایجنٹ ہی رہتا ہے اور کبھی مستقل مزاج نہیں ہوتا۔ اگر لڑکے کی عادات وخصلیات کا تجزیہ کیا جائے تو وہ مذہب و مسلک کی آڑ میں سیاست کے کاروبار سے منسلک ہے اور ملک دشمنی کے مشن پر گامزن ہے۔

نوائے وقت کے کالم نگار جناب اتر چوہان نے اپنے متعدد کالموں میں مولانا مفتی محمود مرحوم کے بیانات دھرائے جو مولانا مرحوم نے پاکستان اور کشمیر کے متعلق جاری کیئے۔ مولانا نے فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں ہوئے۔اسی طرح تحریک آزادی کشمیر اورجہاد آزادی کو فساد قرار دے کر جمعیت علمائے ہند کے اکابرین اور کانگرسی لیڈروں سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ پاکستان دشمنی کے باوجود لڑکا قومی سطح کا لیڈر ، عالم دین اور شہرت یافتہ سیاستدان ہے اور کئی کئی بار ملک پر حکومتیں کرنے والی سیاسی جماعتیں لڑکے کی پشت پناہ اور سیاسی مددگار ہیں۔ لڑکا ہر حکومت کا حصہ رہا حتیٰ کہ دو بار کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بھی رہا۔ لڑکے نے کبھی بھی پاکستان کے خلاف بھارتی لیڈروں اور اکابرین دیو بند کے بیانات کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی بانی پاکستان کو قائد اعظمؒ کہنے کی زحمت گوارہ کی۔ وہ انہیں ہمیشہ جناح کہتا ہے مگر پھر بھی ناشکری پاکستانی قوم کی آنکھ کا تارہ اوربڑی سیاسی جماعتوں اور صحافتی حلقوں کا پیارا بلکہ راج دلارا ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ جو لڑکا اپنے باپ کی مخبری کرتا تھا اسے کسی دوسرے سے کیا ہمدردی ہو سکتی ہے۔ جس ملک کو وہ گناہ کا نتیجہ اور جس جہاد کو اس کے والدم محترم فساد قرار دے چکے ہیں اس کے خلاف محاذ آرائی کرنا اور مذہب و مسلک کی آڑ میں ملک دشمن قوتوں کا آلہ کار بننا کوئی انوکھی بات نہیں۔ حیرت کی بات ہے عوام اور محب وطن جماعتوں کو یہ پوچھنے کا حوصلہ کیوں نہیں کہ یہ لڑکا کون ہے؟

You May Also Like

Liberating Kashmir Through Solidarity Days and Seminars

‘I am glad Quaid did not live to see all this.’

Fall of East Pakistan: Options not Exercised

The Challenges To The Surprise PM

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *