سات سو سال بعد

ابن خلدون نے قبائلی اور خاندانی عصبیت کو وسیع تر اور مثبت معنی میں استعمال کیا مگر بہت سے دانشوروں اور متعصب قلمکاروں نے اسے تعصب یا بغض کے معنی دیکر عصبیت کی اصل اہمیت کو منفی اور محدود انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ قرآن کریم میں فرمان ربیّ ہے کہ اللہ نے پیغمبر وں میں سے بعض کو بعض پر فضلیت دی۔ یہ اللہ کی مرضی ہے وہ جسے چاہے اُسکا مرتبہ بلند کر دے مگر اسکا مطلب ہر گز نہیں کہ دوسرے پیغمبر وں کا درجہ کسی بھی طرح کم ہے۔ فضلیت کا معیار خود خدا نے مقرر کیا اور وہ ہی ان درجات کا گواہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چارپیغمبروں پر آسمانی کتابیں نازل فرمائیں اور اپنی آخری کتاب قرآن حکیم اپنے سب سے محبوب بندے اور نبی ﷺ پر نازل فرماکر اعلان کر دیا کہ اے نبی ﷺ آپ خاتم النبین ہیں اور سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اسی طرح آپ ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب (القرآن)آخری آسمانی کتاب ہے اور تا قیام قیامت ساری دنیا کے انسانوں کے لیے راہ ہدایت ہے۔اس سے پہلے ادوار کا قرآنی تاریخ کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو ایک ہی وقت میں کئی پیغمبر موجود تھے اور اُن کی امتیں مختلف نوعیت کی بد اعمالیوں میں مبتلا تھیں اور کسی بھی صورت میں اصلاح کی طرف مائل ہونے کو تیار نہ تھیں۔ حضرت ابراہیمؑ کے واقع میں ذکر ہے کہ دو فرشتے اُن کے مہمان بن کرآئے توآپ ؑ اُن کے لیے تلا ہوا بچھڑا لے آئے مگر انہوں نے کھانے سے انکارکر دیا۔ آپ ؑ کچھ رنجیدہ ہوئے تو انہوں نے کہا ہم ربّ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں اور آپؑ کو ایک بیٹے کی خوشخبری سنانے آئے ہیں۔ آپؑ کی بیوی حضرت سارہ ؓ سامنے آئیں اور کہا تم میرا مذاق اڑا رہے ہو، میں بوڑھی ہوں اور کیا اس عمر میں بچہ جنوں گی۔ فرشتوں نے کہا یہ تو اللہ کی مرضی ہے۔ وہ خالق و مالک ہے جو چاہے کر سکتا ہے۔ جاتے ہوئے وہ کہہ گئے کہ اسحاقؑ کے بعد یعقوب ؑ یعنی پوتے کی بھی خوشخبری ہے۔ رخصت لیکر کہا ہم نے قوم لوطؑ کی طرف جانا ہے یعنی اُن کی نافرمانیوں اور بد اعمالیوں پر انہیں سزا دینی ہے۔
ایک ہی وقت میں باپ اور بیٹے حضرت آدم ؑ اور حضرت شیث ؑ، حضر ت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمعیل ؑ،حضرت اسحاقؑ، حضرت یعقوب ؑ، حضر ت یوسف ؑ، حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمان ؑ، حضرت زکریاؑ اور حضرت یحییٰ ؑ پیغمبری کے رتبے پر فائز ہوئے۔ اسی طرح حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ دونوں بھائی ایک ہی وقت میں پیغمبر تھے۔ والد اور بڑے بھائی کا درجہ حقوق العباد کی وجہ سے ویسے بھی بلند ہے۔ قرآن کریم میں حضرت یحییٰ ؑ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ماں باپ کا فر مانبردار بیٹا ہوگا۔ جب باپ اور بیٹا ایک ہی وقت میں پیغمبر ی کے رتبے پر فائز ہوں تو کوئی انسان سوائے خداوند کریم کے اُن کے درجات کا تعین نہیں کرسکتا۔
فرمایا:۔ مومن اور مشرک ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ پھر اولیأ اللہ، شہدأ اور صالحین کا ذکر ہے کہ دیگر انسانوں سے بلند مقامات پر فائز ہیں۔ متقین، مومینین اور مسلیمین کا الگ الگ ذکر ہے اوران سب کے درجات ومقامات اللہ بزرگ و برتر نے مقرر کر رکھے ہیں۔

فتح مکہ کے موقع پر جب اسلامی لشکر نے کچھ فاصلے پر پڑائو کیا اور آگ کے آلائو روشن کر دیے گے تو اہل مکہ کو پریشانی لاحق ہوئی ۔ ابو سفیان ؓ موقع پر پہنچے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ صبح جب لشکر نے مکہ کی طرف کوچ کیا توحضرت عباسؓ ابو سفیان ؓ کو ایک بلند مقام پر لے گئے اور لشکر اسلام کو دیکھنے کی دعوت دی۔ حضرت عباس ؓ مختلف صیغوں کا نام لیتے کہ یہ فلاں قبیلے کے جانباز ہیں اور یہ فلاں قبیلے کے شہسوار دستے ہیں ۔ آ پ ؓ نام لیتے جاتے تو ابوسفیان ؓ کہتے ہمیں ان سے کوئی ڈر نہیں اور پھر ان کی خامیاں بیان کرتے۔ آخر میں ایک چھوٹا دستہ سامنے سے گزرا تواُن کی ہیبت دیکھ کر خود ابوسفیان ؓ بولے کیا یہ بنو ہاشم ہیں؟با خدا کوئی بڑے سے بڑا بہادر ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ ان کے پاس علم و بصیرت ، عقل اوردانائی ہے۔

یہ قبیلہ اہل عرب میں سب سے زیادہ معتبر اور بااصول تھا اور اب رسول اللہ ﷺ کی آمد کی وجہ سے یہ سارے جہانوں میں فضلیت و مرتبے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ۔ جب تک ان کی نسل دنیا میں رہے گی کوئی دوسرا شخص یا قبیلہ رتبے میں ان سے بڑھ کر نہ ہوگا۔

ریاست مدینہ اسی علم و بصیرت اور عقل و دانائی کے معیار پر قائم ہوئی جس کا آئین قرآن اور قانون شریعت محمد ی ﷺ تھا ۔ خلفائے راشدین نے اسی آئین و قانون پر عمل پیرا ہو کر اسلامی ریاست کی سرحدیں چین سے افریقہ اور یورپ کے قلب تک پھیلا دیں۔ صدیوں پرانی ایرانی، چینی ، ہندی، مصری اور یونانی تہذیبوں کو دین اسلام کی روشنی نے جلا بخشی ۔ یونانی حکمأ اور فلاسفہ کے نظریات کی درستگی کی اور علم و حکمت کے الہٰی اصولوں اور قوانین کا اجراء کیا۔ ریاست اور معاشرے کو ہمدردی ، اصول پرستی ، عدل اور مساوات کے قوانین کے تابع کیا اور انسانی معاشرے میں درجہ بندیاں ختم کر کے ہر انسان کو فطری عمل و اصول کے تحت جینے کا حق دیا۔

جس طر ح خیر وشر دو نظریے اوردو راستے ہیں ویسے ہی عصبیت کے مثبت و منفی پہلو ہیں۔ عصبیت کا تعلق حسب و نسب سے ہے اور علم و تقویٰ ، تزکیہ نفس مجاہدہ قلبی ، جرأت و بہادری عصبیت کی بنیاد ہے۔ آپ ﷺ کی ذات بابرکات علوم ظاہریہ و باطنیہ کامنبع و مخزن ہے اور آپ ﷺ کی اولاد اس سرچشمہ فیض سے نکلنے والے ہر دو علوم کے دریا ہیں ۔ آپ ﷺ کی آل و اصحاب آپ ﷺ کی نسبت سے اعلیٰ نسبی کے روشن مینار ہیں جن کی روشنی سے تا قیام قیامت مخلوق خد ا فیض یاب ہو گی۔

وہ لوگ جن کی تحقیق کا دائرہ ناسوتی ، استدارجی اور مادی علم وعمل تک محدود ہے وہ کسی بھی الہٰی ، قرآنی روحانی علم و عمل کو سمجھنے سے نہ صرف محروم ہیں بلکہ وہ اپنی عقل و فرسودہ علم کی بنیاد پر حقیقی علم کی نفی کر تے ہیں۔ اُن کے نزدیک ظاہری مادی چکا چوند عیش و عشرت ہی سب کچھ ہے وہ اسی کے حصول کی خاطر جبرو استحصال کرنے والی قوتوں کے حامی ومدد گار ہیں۔ قرآن کریم کی سورۃ الزخرف میں بیان ہے کہ اللہ ہی ہر شخص کو روزی دیتا ہے اور بلند کرتاہے درجے بعضوں کے بعضوں پر اور ٹھہراتا ہے ایک دوسرے کا خدمت گار۔ اور تیرے ربّ کی رحمت بہتر ہے اُن چیزوں سے جو یہ لوگ( منکر، متکبر اور منافق) سمجھتے ہیں۔ آگے فرمایا کہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو سب لوگ ایک ہی دین پرہو جا تے تو ہم دیتے اُن لوگوں کو جومنکر ہیں رحمان ( اللہ ) کے اُن کے گھروں کے لیے چھتیں اور سیڑیاں چاندی کی اوراُن کے گھروں کے دروازے اور تخت سونے کے جن پر وہ تکیہ لگا کر بیٹھیں مگر یہ سب کچھ بھی نہیں محض دنیاوی زندگی کا ایک شغل ہے ۔ اصل زندگی آخر ت کی ہے اور یہ اُ ن کے لیے ہے جن کے دلوں میں خدا کا ڈر ہے۔

اسی سورۃ مبارکہ میں فرعون کی حکمرانی ، تکبر اور جاہ جلا ل کا ذکر ہے جب اُس نے مخاطب کیا اپنی قوم کو اور کہا کیا میں مصر کا بادشاہ نہیں ہوں۔ نہریں میرے محل کے نیچے سے گزر رہی ہیں۔کیا میں اُس شخص سے بہتر نہیں جس کی کوئی عزت نہیں۔ جو ٹھیک طرح سے بول بھی نہیں سکتا تو پھر اس پر (موسیٰ ؑ ) کیوں نہ اُترے کنگن سونے کے اور کیوں نہ وہ آیا فرشتوں کے جھرمٹ میں ۔

اسی سورۃ کی آیت سے آگے مشرکین مکہ کا ذکر ہے جب انہوں نے اعتراض کیا کہ قرآن کریم طائف کے کسی رئیس خاندان کے مرد یا کسی بڑے قبیلے پر کیوں نہ اترا ۔ جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ میری رحمت کو اپنی مرضی سے بانٹتے ہیں حالانکہ رحمت کے دریا ربّ کائنات کی دسترس میں ہیں ۔ اُس کے نزدیک کسی قبیلے کے سردار ، کسی متکبر بادشاہ اور سونے چاندی کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ہی اس چکا چوند اور ظاہری بے وقعت نمائش کی کو ئی حیثیت ہے۔ اصل نسبت رحمت خداوندی سے ہے اور جن لوگوں نے اُس کی راہ پر چلنا پسند کیا وہ اللہ کی نسبت سے اپنے نسب کی ظاہری و باطنی تربیت کرتے ہیں جو آگے چلکر اُن کی نسلوں میں قائم رہتی ہے۔ اگر ایسے لوگ دنیا میں نہ ہوں تو نہ ریاست کا وجود قائم رہ سکتا ہے اور نہ ہی معاشرہ ان قوانین کے تابع عزت و حرمت کا مقام پاسکتا ہے۔

جیسا کہ بیان ہوا کہ درجہ و فضلیت خُدا کا انعام ہے ورنہ سب لوگ کسی ایک ہی عقیدے پر جمع ہو کر ذلت کی زندگی پر اکتفا کر لیتے ۔ اللہ چاہتا تو صرف منکرین ، منافقین اور مشرکین کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنا دیتا ، اُن کے دروازے ، کھڑکیاں ، دروازوں کے آگے بچھے پائوں صاف کرنے والے رگ اور تخت سونے چاندی اور جواہرات کے بنا دیتا تو یہ لوگ عیش و آرام کی زندگی بسر کرتے اور ساری مخلوق انسانی ان کی طرف کھنچی چلی آتی اور اُن کی غلامی کو باعث فخر سمجھتی ۔مگر اللہ نے مخلوق پر احسان کیا اور آخرت میں انہیں اس سے زیادہ سکون و آرام کی خوشخبری دی۔

قرآن کریم میں فرمان ربی ّہے کہ لوگ ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ تم کتنا عرصہ سالوں کی گنتی میں دنیا میں رہے تووہ کہینگے اصل حقیقت تو گنتی والے ہی جانتے ہیں مگر ایک دن یا پھر اُس سے کم یعنی سہ پہر سے سورج ڈھلنے تک۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب اصل زندگی اتنی ہی ہے تو پھر اس ظاہر ی زندگی کو اللہ کا احسان سمجھ کر اُس خالق و مالک کی نسبت سے اسے بہتر انداز میں کیوں نہ بسر کیا جائے۔

دنیا کی عام زندگی ہو یا کوئی عہدہ و رتبہ، جب تک انسان اپنی نسبت کا تعین نہ کرے وہ نہ تو معاشرے میں کوئی سودمند اور اچھا کردار ادا کر سکے گا اور نہ ہی زندگی کے کسی شعبے میں ریاست کی خدمت کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکے گا۔ حضرت ابراہیم ؑنے اپنے چچا آزر اور اُس کی قوم سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں بیزار ہوا تمہارے کاموں سے ۔میں اُس کی راہ پر چلوں گا جس نے مجھے پیدا کیا ۔ پھر حضرت نوح ؑ اور اُن کے بیٹے اور بیو ی اورحضر ت لوطؑ اور اُن کی بیوی کی مثال دیکر کہا کہ دنیاوی محبت ، میاں بیو ی کے جذباتی لگائو اور اولاد سے نسبت کا تعلق تب ہی قائم رہ سکتا ہے جب اس عارضی نسبت پر اللہ سے نسبت اور لگائو کو ترجیح نہ دی جائے۔ اگر انسان اور ربّ کے رشتے کے درمیان کوئی چیز حائل ہو جائے تو انسان کو اوّل ربّ کی مد دسے اس رکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اگر کامیابی نہ ہو تو اس عارضی اور ظاہری نسبت سے تعلق ختم کر کے صرف نسبت الہٰی پر ہی گامزن رہنا چاہیے ۔ سورۃ البقر ۃ آیت 124میں فرمایا :۔اور جب آزمایا ابراہیمؑ کو اُس کے ربّ نے کئی باتوں میں اور پھر اُ س نے وہ پوری کیں۔ تب پھر فرمایا میں تجھ کو کرونگا سب لوگوں کا پیشوأ۔ بولا اور میری اولاد میں سے بھی، فرمایا نہیںپہنچے گا قرار ظالموں کو۔ یہودو انصاریٰ کو اس بات پر فخر تھا کہ وہ اولاد براہیم ؑ ہیں ۔ مگراللہ نے پہلے ہی فیصلہ دے دیا کہ جو ظالم ہوگا ، مخلوق پر جبر کریگا اور میرے راستے سے ہٹ کر شیطان کی پیروی کریگا وہ اللہ کے فیض سے محروم رہیگا ۔ دین میں نسبت کا تعلق اعمال صالح اور اللہ کے احکامات کی پیروی میں ہے مگرآج ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیاست ، مذہب ، روحانیت ، علمیت اور مادی مراتب کے بچاریوں کا جم غفیر ہر سو اُمڈکر اللہ کے احکامات کا نہ صرف باغی ہے بلکہ کھلم کھلا مذاق اُڑایا جارہا ہے۔ گدی نشینوں ، پیروں اور درویشوں کے آستانے ہوں یا سیاسی شعبدہ بازوں کے گھرانے ،علمائے کرام ہوں یا ڈاکٹر ، پروفیسر ، اعلیٰ افسر یا حکمران۔ ہر طرف صاحبزادوں ، شہزادوں ،متولیوں ، سجادہ نشینوں اور سیاسی خانوادوں کے جانشینوں کی حکمرانی ہے اور عوام الناس بلا تحقیق و تخصیص ان کے سامنے سر بسجود ہیں اور ذلت و رسوائی کو آزادی ، جمہوریت سیاست اور روحانیت سمجھ کر بے تو قیری کا طوق گلے میں ڈالے اللہ سے شکوہ کناں ہیں ۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ائیر مارشل اصغر خان نے بھر پور تحریک چلائی تو بھٹومرحوم نے اصغر خان کو پیغام بھجوایا کہ بیوقوفی مت کرو اور میرے ساتھ مل جائو۔ یہ جذباتی اور بیوقوف قوم ہے ہم ملکر ساری زندگی ان پر حکمرانی کر سکتے ہیں۔

جناب بھٹو میکاو لین تھے اور میکائولی کے اصولوں پر کار بند تھے ۔ میکائو لی اپنے حکمران کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بادشاہ کو لومڑی کی طرح مکار اور شیر کی طرح خونخوار ہونا چاہیے ۔وہ قوانین کا سہار لیکر عوام کا شکار کر ے اور انہیں یقین دلا دے کہ اُس کے سوا کوئی ان کا ہمدردو غمگسار نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ جو بادشاہ وعدے کا پاس کرے وہ ہمیشہ نا کا م ہوتا ہے۔ اس سلسلہ کی وہ سب سے بہتر مثال سکند ر طائوس کی دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ عوام بیوقوف اور غرض مند ہوتے ہیں ۔ انہیں اُلجھائے رکھنے میں ہی بادشاہ کے لیے بہتری ہے۔

عصبیت کا ایک پہلومثبت اور دوسرا منفی ہے ۔ مثبت پہلو کا تعلق روح سے اور منفی کا مادے سے ہے۔ فرمایا جب آدم کوٹھیک طرح بنالوں اور پھر اپنی جانب سے اس میں روح پھونک دوں تو اے فرشتو تم اسے سجدہ کرو۔ یہی وہ روح ( روح رحمانی ) ہے جو بندے اور ربّ خالق کُل وکُن کے درمیان ایک نسبت قائم کرتی ہے ۔جب انسان روح رحمانی کو اللہ کے فضل و توفیق سے جلا بخشتا ہے ، اسے آلائشوں سے پاک کرتا ہے تو روح رحمانی اُس کی حیوانی روح پر غلبہ حاصل کر لیتی ہے۔ جس طرح بندے اور ربّ کا امر ربیّ روح رحمانی کی نسبت سے ایک مضبوط تعلق بحال کرتی ہے ویسے ہی بندے اور دیگر انسانوں میں بھی ایک تعلق پیدا ہو کر ایک پاکیزہ ماحول اور معاشرے کی ابتدأ کرتا ہے۔ ایسے ہی معاشرے اور ماحول میں تربیت پانے والے کچھ لوگ اگر کسی بھٹکی ہوئی قوم کی تربیت کا بیڑا اٹھا لیں تو خدائی قوتیں اُن کی مدد کو آپہنچی ہیں اور بھلائی کے کاموں میں کامیابی سے ہمکنار کرتی ہیں۔ خیال رکھنے کی بات ہے کہ ایک نیک اور صالح انسان نہ تو ولی ّاللہ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی ناسوتی علم وعمل کا پیروکار ۔ حاتم طائی ، نو شیروان عادل، کنفیوشش ، کشمیری حکمران راجہ رنادت اورکئی حکمران مصلح اور درویش کسی ایک دین کے پیروکار نہ تھے ۔ سچائی ، عدل ، مساوات ، بھلائی ، انسانی ہمدردی اور محبت ان کے اوصاف تھے اور سب کے سب خوف خدا رکھنے والے خدمتگار تھے۔

ایسے اوصاف ایک شخص میں بھی ہوسکتے ہیں ، قبیلے اور برادریاں بھی اپنے بزرگوں کی اچھی عادات وروایات پر عمل کرتی ہیں اور اپنے حسب و نسب کو داغدار نہیں کرتیں ۔ کنیڈا کا سابق وزیر اعظم ٹروڈو عوام دوستی میں مشہور تھا اور اب ایک مدت بعد اُسکا بیٹا جسٹن ٹروڈو اپنے باپ کی اچھی روایات کو آگے بڑھا رہا ہے۔

نہرو کو تیلیہ کا مقلد تھا اور اُس کی بیٹی اندرا گاندھی باپ سے بھی دو قدم آگے تھی۔ بہت سی اچھی یا بری خصلیات انسانی خون میں رچ بس جاتی ہیں اور اُن کی اولادیں اور نسلیں اُسی راہ پر گامزن ہوتی ہیں ۔ متحدہ ہندوستان میں کچھ ایسے قبیلے اور برادریاں تھیں جو چوری ، ڈاکے ، اغوأ اور رسہ گیری کی وجہ سے مشہور تھیں ۔ ان قبیلوں میں رسم تھی کہ جب تک جوان لڑکا ڈاکہ نہ ڈالے یا کسی کو قتل نہ کرے قبیلے کی کوئی لڑکی اُ سے شادی نہ کرتی تھی۔ پختون کلچر میں یہ روایت عام تھی کہ جب تک دُلہا ایک فاصلے پر رکھی ایک ڈبیہ کے شیشے کو گولی کا نشانہ نہ بنائے بارات دلہن کے انتظار میں بیٹھی رہتی تھی۔ عبداللہ حسین نے اپنے مشہور ناول ’’اداس نسلیں‘‘ میں لکھا ہے کہ پختون دلہن اپنی سہلیوں کے جھرمٹ میں ایک فاصلے پر کھڑی ہو جاتی تھی اور پھر ایک دنبہ اُٹھا کر اپنے سر سے اوپر بلند کرتی تھی۔ اس مختصر وقفے میں پہلے سے تیار دلہا دبنے پا فائر کرتا اور جونہی خون کی پھوار دلہن کے سر پر گرتی وہ دنبہ اپنے پیچھے پھینک کر سہیلوں کے ہمراہ گھر کے اندر چلی جاتی۔ ایک آدمی بھاگ کر دنبہ ذبح کرتااور پھر جشن منایا جاتا ۔یہ بڑا نازک مرحلہ ہوتا ۔ اگر گولی دلہن کو لگ جائے تو معاملہ خراب ہو جاتا اور اگر دنبے کو نہ لگے تو بارات شرمندہ ہو کر واپس چلی جاتی ۔

ہندوستان میں راجپوت قبیلے معتبر اور معزز سمجھے جاتے تھے اور انہیں حکمرانی اور سپہ سالاری کا حق دیا جاتاتھا۔ نسل در نسل یہ روایت چلتی رہی اور نظام سلطنت بھی برقرار رہا ۔ جوں جوں دین اسلام کی روشنی پھیلتی گئی فرسودہ رسمیں مٹ گئیں ۔ تقویٰ ، پرہیز گاری، عدل ومساوات بزرگی اور برتری کا معیار ٹھہرا تو بہت سی فرسودہ روایات کا خود ہی خاتمہ ہو گیا ۔البتہ بہادری ، دلیری ، جرأت وبیباکی کا عنصر اپنی جگہ قائم رہااور قبیلے اور برادریاں اپنی اچھی روایات کو آگے بڑھاتی رہیں۔

انسانی نفسیات کا جائزہ لیں تو کئی قبیلے ، برادریاں اور قومیں متعصبانہ عصبیت کی حامل ہیں اور بحیثیت مجموعی معاشرے اور ریاست میں بدامنی اور خلفشار پھیلانے کا موجب بنتی ہیں۔ علاقائیت ، لسانیت ، فرقہ واریت اوردوسرے قبیلوں سے نفرت ان کی گھٹی میں پڑی ہے اور وہ ہر صورت میں اسکا نہ صرف اظہار کرتے ہیں بلکہ موقع مل جائے تو کبھی دین ، کبھی علاقائیت اور کبھی ذاتی بغض و نفرت کی بنیاد پر قومی یکجہتی اور ملکی سلامتی کو دائو پر لگانے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر وقت ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار بننے کو تیار رہتے ہیں چونکہ اُن کی زندگیوں کا مقصد ہی تفرقہ بازی اور فساد پھیلانا ہے۔

یہ طبقہ کوئی ان پڑھ ، جاہل یا اجڈ لوگوں کا نہیں بلکہ پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جن میں وکیل ، جج، ممبران اسمبلی ، اعلیٰ حکومتی عہدیدار، فوجی افسر، ڈاکٹر، انجینئر اور بظاہر اعلیٰ علمی شخصیت شامل ہوتی ہیں۔

تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والے علماء، سیاستدان اور اُن کے پیروکار اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے جن کے نظریات پر کار بند ایک ٹولہ آج بھی ملک دشمنی کے مشن پر کام کر رہا ہے جنہیں دنیا بھر کی شیطانی قوتوں کی مالی ، سیاسی اور مادی مدد حاصل ہے ۔ ایسے لوگوں کا اگر ڈی این اے کیا جائے تو ان میں خاندانی اوصاف اور اعلیٰ نسبی کے جرثوموں کی کمی ہوگی۔ ان کی عصبیت تعصب ، بغض اور فتنے سے جڑی ہو گی نہ کہ اعلیٰ نسبی ، فراخدلی ، جرأت ایمانی اور اعلیٰ انسانی اقدار سے کچھ تعلق ثابت ہوگا۔

تاریخ سے ثابت ہے کہ ایسے لوگ اپنی زندگیاں شیطانی حربوں ، انسان دشمنی اور نفرت کی آبیاری میں گزار دیتے ہیں اور جو لوگ ان کے پیروی میں شیطانی راستوں پر چل نکلتے ہیں وہ ہمیشہ نفرت کی آگ میں جلتے ہیں اور اپنا بغض اپنی اولا دوں کو ورثے میں دے جاتے ہیں ۔

قرآن کریم میں واقع بدر کے ذکر میں فرمایا کہ شیطان نے اہل مکہ کو طیش دی ، ورغلایا ، تکبر کے گھوڑے پر سوار کیا اور بدر کے میدان میں لا کھڑا کیا اور پھر کہا اب تم جانو اور تمہارا کام میرا مشن اتنا ہی تھا اس سے آگے میں تمہاری کوئی مد نہیں کر سکتا۔

شاید ایسے منفی کرداروں کی جانچ کی کوئی مشین فی الحال ایجاد نہیں ہو سکی جو ان کے حسب ونسب کا پتہ دے مگر فقرأ اور اولیأ نے قرآن کریم اور روحانی علم کے ذریعے ان کی نشاندہی کی ہے۔ حضرت میاں محمد بخش ؒ کافرمان ہے کہ جسطرح تمے کی جڑ ، پھل ، پتے اور بیچ کڑوے ہوتے ہیں اسی طرح بدکردار ، بد اعمال ، بددیانت، حاسد اور فتنہ پرداز لوگوں کی اولادیں اللہ کی رحمت وہدایت سے محروم بد اعمالی کا پھل ہوتی ہیں۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں:۔

ابر اگر آب زندگی بارد ہر گز از شاخ بید برنخوری با فرد مایہ روزگا ر مبر کز ئنی بور یا شکر نخور بادل اگر آب حیات بھی برسائے تو بید کی شاخ سے تو ہر گز پھل نہیں کھا ئے گا ۔ کسی کمینے شخص کے ساتھ زندگی بسر نہ کر کیونکہ پٹ سن سے تو کبھی شکر نہیں کھا سکتا۔ بابدان یار گشت ہمسر لوط خاندان بنبوتش گم شد سنگ اصحاب کہف روزی چند بی نیکان گرفت و مردم شد حضرت لوطؑ کی بیوی بُروں کی صحبت میں چلی گئی اور اُس کی نبوت کا خاندان ختم ہوگیا۔ اصحاب کہف کے کتے نے چند روز نیکوں کی صحبت کی اورا ُسکا شمار انسانو ں میں ہو گیا۔ عاقبت گرگ زادہ گرگ شود گرچہ با آدمی بزرگ شود

بھیڑیے کا بچہ بھیڑیا ہی رہتا ہے چاہے اسکی پرورش انسانوں میں ہی کیوں نہ ہو۔ دیکھا جائے تو آج ایسے بھیڑیوں کی ہرطرف برمار ہے مگر بادشاہ بے اختیار اور مصلحت کوش ہے ۔ وزیر کم عقل ،کرپٹ، کم فہم اور کھلنڈرے ہیں اور حکومتی مشینری کو اورہا لنگ کی ضرورت ہے ۔مگر کوئی مکینک میسر ہی نہیں۔ حکومتی اہلکاربد عنوان ، رشوت خور، کام چور اور باغی ہیں ۔ ستر سالوں سے لوٹ مار،رشوت خوری ، اقرباء پروری ، دھونس دھاندلی ، اور متکبرانہ روش کا سد باب کرنے کا کسی کو خیال ہی نہیں ۔ جو لوگ پارسائی کا دعویٰ کرتے ہیں وہ ہی بڑے پاجی ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ ملک لوٹنے اور قوم کو قرض ، غربت و امراض اور بھوک کے دلدل میں دھنسا نے والے خاندان کس دیدہ دلیری سے شاہی سواریوں پر بیٹھ کر عدالتوں میں آتے ہیں اور پھر عدالتوں کے باہر اپنی عدالت لگا کر عدلیہ کے پرخنچے اڑاتے ہیں ۔میڈیا اُن پر صدقے واری جاتا ہے اور ان متبرک ہستیوں کے دیدار کو ترستا اُن کی راہ میں بچھ جاتا ہے ۔اخبار اُن کی رنگین تصویریں صفحہ اوّل پرچھاپتے ہیں اور عوام کا جم غفیر ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آمڈآتا ہے ۔ سرشام ملک کے نامور صحافی اور دانشور اُن کی حمائت میں قصیدہ گوئی کرتے ہیں اور اُن کے شیریں اقوال و گفتار کو قومی بیانیہ کہہ کر ایک مفلوک الحال ، مدہوش او ر بقول میکاولی کے غرض مند قوم کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ لیڈر سے عوامی محبت اور کالم نگار سے لیڈروں کی عوامی خدمت کے عنوان سے قلم نگاری کرتے ہیں۔

سعدی ؓ لکھتے ہیں کہ نوشیروان عادل جنگل میں شکار کے لیے گیا اورشکار کے کباب بنائے گئے مگر نمک نہ تھا ۔ ایک غلام قریبی بستی میں نمک لینے گیا تو نوشیروان نے حکم دیا کہ قیمت دے کر نمک لیا جائے تاکہ رسم نہ پڑ جائے اور گائوں تباہ نہ ہو جائے ۔ لوگوں نے کہا اسقدر کم مقدار سے کیافرق پڑھتا ہے۔ کہاظلم کی بنیاد شروع میں دنیا میں تھوڑی سی ہوئی مگر کسی نے دھیان نہ دیا اور نہ ہی ازالہ کیا جوآیا اُس نے اضافہ کیا یہاں تک کے ظلم انتہا کو پہنچ گیا۔

اگر زباغ رعیّت ملک خورد سیبی برآورند غلامان اودرخت از بیخ بہ پنج بیضہ ، کہ سلطان ستم روادارد زنند لشکر یانش ہزار مرغ بسیخ اگر بادشاہ رعایا کے باغ سے سیب کھائے تو اُس کے غلام سارے درخت اکھاڑ ڈالیں گے ۔ اگر بادشاہ پانچ انڈوں کے لیے ظلم کو درست سمجھتا ہے تو سپاہی ہزار مرغوں کو سیخوں پر چڑھا لینگے ۔

ہمارے بادشاہوں اور اُن کے مصاحبوں نے اسی انداز سے ملک لوٹا اور دولت باہر لے گئے ۔ لندن میں فلیٹ ، فرانس میں بنگلے اور جائیدادیں ، کنیڈا میں ہوٹل ، دبئی میں آسمان کو چھوتے ٹاور ، ملا ئیشیامیں جزیرے اور کاروبار ۔دنیا میں کونسا ملک ہے جہاں ہمارے سیاستدانوں اور اُن کی مصاحب بیوروکریسی نے جائیدادیں نہیں بنائیںاور کونسا غیرملکی بینک ہے جہاںڈالر اکائونٹ ، سونا اور قیمتی جواہرات نہیں چھپا رکھے۔ سیاستدانوں اور بیورو کریٹوں کے گھروں سے کرنسی، سونے اور جواہرات کے جو دخیرے ٹیلیویژن پر دکھلائے جاتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں کسی میڈیا نے اس پر کبھی نہ لکھا اور نہ ہی بحث کی۔ عام آدمی کا سوال ہے کہ اگر حکومت وقت واقعی عوام کی حالت سدھارنے کا مشن لیکر آئی ہے تو سب سے پہلے اپنی صفوں میںصفائی کا کام شروع کر دے ۔ حضر ت عمر بن عبدالعزیز ؓخلیفہ بنے تو سب سے پہلے اپنی اور اپنی بیوی کو جہیز میں ملی جاگیر اور زر وجواہرات بیت المال میں جمع کروادیے اور پھر بنو اُمیہ کے سرداروں ، گورنروں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اپنا جائز اثاثہ رکھ کر باقی مال واپس کر دیں۔ احمد بن بیلا کی بیوی نے جنگ آزادی کے ہیرو سے نکاح سے پہلے اپنا زیور مجاہدین کے لیے وقف کر دیا۔ ہماری اسمبلیوں میں بیٹھی خواتین جس طمطراق سے مجلس شوریٰ میں جلوہ افروز ہوتی ہیں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ اُس طبقے کی نمائندگی کرتی ہیں جو بھوک سے بلکتے بچوں کو چلچلاتی دھوپ اور ہڈیوں میں سوراخ کرتی سردیوں میں کھیتوں کے کنارے رکھ کر سارا سارا دن کھیتوں میں کام کرتی ہیں۔ جن کے پاس تن ڈھاپنے کو کپڑا اور پیٹ بھرنے کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی ،جنہوں نے ہسپتال ، ڈاکٹر یا نرس کا صرف ذکر ہی سنا ہے۔ البتہ وہ اپنے لیڈروں کی شکلیں پہچانتے ہیں چونکہ وہ اُن سے محبت کرتے ہیں اور اُن کے ووٹ کی عزت بحال کرنے جیلوں کے فائیو سٹار کمروں میں رہتے ہیں۔

آج پاکستان میں بسنے والی رعایا کا باغ ویران ہے۔ بادشاہ پھل اٹھاکر باہر چلے گئے اور اُنکے غلاموں نے درخت ہی کاٹ ڈالے ہیں ۔ شاہی خانوادوں نے قومی خزانہ لوٹ کھایا اور بیوروکریسی نے مرغوں کی جگہ رعایا کو سیخوں پر چڑھا لیا۔ حاکم وقت اور اُس کے مصاحبوںنے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے اور اب قریب المرگ رعایا کو صبر کرنے ، قربانی دینے اور مزید برے وقت کی خوشخبری سنا رہا ہے۔ قارون ہلاک شد ، کہ چہل خانہ گنج داشت نوشین رواں نہ مرد کہ نام نکوداشت

قارون کے پاس چالیس خزانے تھے مگر وہ مر گیا۔ نوشیروان عادل نہیں مرا کیونکہ وہ نیک نام چھوڑ گیا۔ ہزاروں سال پہلے مصر میں ایک قارون تھا جس کے پاس چالیس خزانے تھے۔ آج پاکستان میں چالیس سے زیادہ قارون ہیں اور ہر ایک کے پاس چا لیس چالیس ہزار خزانے ہیں۔ قارون فرعون کا وزیرتھا اور بلعم باعوریٰ ایک عالم دین اوردرویش تو تھا مگر قارون اور فرعون کا حمأیتی اور حضر ت موسیٰؑ کا مخالف تھا۔ قرآن پاک میں فرمان ربی ّہے کہ وہ اپنی بیوی کی محبت اور دنیاوی لالچ میں آکر روحانی اور دینی رتبے سے گرگیا۔ بعض تفاسیر میں ہے کہ قیامت کے دن بلعم باعوریٰ اور اُس جیسے علمأو درویش کتوں کی صورت میں اُٹھیں گئے اور اصحاب کہف کا کتا بلعم باعوریٰ کی شکل میں اُٹھے گا۔

اگر ہم اپنے ملک کے قارونوں کا نسب دیکھیں تو ان میں سے کوئی بھی علمی ، عقلی ، دینی ، روحانی اوراعلیٰ انسانی اقدار کے حامل گھرانوں سے تعلق نہیں رکھتا۔ مولانا مودودی ؒ لکھتے ہیں کہ کردار کی سب سے اچھی تعریف سیّد قطب شہید نے کی ہے۔ سیّد قطب شہید فرماتے ہیں کہ شخصیت کی عمدہ مثال پھول اور کردار خوشبو ہے۔ لیڈر ، قائد ، رہبر اور مصلح پھولوں کی طرح ہوتے ہیں۔ اُن کی آمد و اظہار سے معاشرہ مہک اُٹھتا ہے اور اُن کے کردار کی خوشبو ہر سو پھیل جاتی ہے۔

مولانا عبداللہ فرشی اپنی تصنیف ’’کشمیری ہنرمند‘‘ میں لکھتے ہیں کہ بادشاہ کا حسب و نسب رعایا کے مقدر سے منسلک ہوتا ہے۔ رعایا پرور بادشاہ مال وزر کا نہیں بلکہ علم کا بھوکا ہوتا ہے۔ وہ ہنرمندوں اور علماء کی تلاش میں رہتا ہے تاکہ اُس کی رعایا علم وہنر کی قوت سے خوشحال ہو ۔ وہ رعایا کی خوشی اور خوشحالی سے اطمینان قلب حاصل کرتا ہے ۔ قرآن کریم کی سورۃ الحجرات کی مثال پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ کا فرمان ہے کہ لوگوں کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر پہچان کے لیے اُن کے قبیلے اور ذاتیں یعنی حسب و نسب کا سلسلہ رکھا۔ اللہ کے ہاں عزت اُسی کی ہے جس کا ادب بڑا ہے ۔ ذات برادری یا قبیلہ محض علامت ہے ۔وہ حضرت امام غزالی ؒ ، حضرت فرید الدین عطا ر اور دیگر علمأ و حکمأ کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ علم وفن کے اعلیٰ مدارج پر فائز ہونے والی ہستیاں اپنے قبیلے کے لیے نہیں بلکہ ساری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اللہ کے نزدیک بلند درجہ اسی کا ہے جو باادب اور متقی ہے۔ اگر کوئی گھرانہ یا قبیلہ اللہ کے بیان کردہ اوصاف سے منرین ہے تو یقینا اُس کا رتبہ انسانوں میں بھی بلند ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے قبیلے کی اعلیٰ روایات پر کاربند معاشرے اور ریاست کی خدمت کرتا ہے تو وہ بھی اعلیٰ مقام پر فائز ہے بشرطیکہ وہ اللہ کے احکامات سے روگردانی کرنے والا نہ ہو۔

آجکل کے دور میں کچھ لوگ معمولی حیثیت سے اُٹھے اور حرام کی دولت کے ناجائز طریقوںسے انبار لگالیے۔ فرعونیت کی یہ حالت کہ عدالتیں اور حکومتیں اُن کی مرضی سے چلنے لگیں اور عالمی سطح پر اُن کی پذیرائی ہونے لگی ۔ جج، جرنیل ، صحافی ، دانشور اورسیاستدان اُن کی مراعات سے مرغو ب ہوئے اور قدموں میں بچھ گئے ۔لوٹی ہوئی اور حرام کی کمائی سے ان لوگوں کے شفاخانے اور لنگر خانے چلنے لگے تودرباروں پر بیٹھے خلیفے ، متولی اور سجادہ نشین اُن کے دروں پر سوالی بن کر آگے ۔ یہ لوگ قانون سے مبرا ہوئے اور ریاست کے اندر کئی ریاستیں بن گئیں جہاں پاکستانی پولیس اور پریس کا داخلہ بند ہو گیا ۔ ایک دانشور نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ لوگ وقت کے حاتم طائی اور عوام کے خدمت گار ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ہم مسلمان ہو تے ہوئے خد ا سے آس توڑ کر ان لوگوں سے اُمیدیں باندھ چکے ہیں۔ایسے لوگوں کے متعلق حضرت علی ؓ سے کسی نے پوچھا کہ کیا حرام کی دولت سے صدقہ و خیرات جائز ہے ۔ آپؓ نے فرمایا یہ ایسا ہی کہ کسی نے کھانے کی ایک دیگ چڑھائی اور پھر اُس میں چند قطرے پیشاپ ڈال دیا۔ پکانے والے کا حرام مال تو تھا ہی مگر کھانے والے بھی حرام میں شامل ہو گئے ۔

مشہور کشمیری حکمران راجہ رنادت کا حکم تھا کہ ریاست اور عوام کو لوٹنے والے سے مال چھین کر خزانے میں ڈال دو اور عوام کا مال انہیں واپس کر دو۔ لوٹنے والے کو زندہ جلا دو۔اگر کوئی شخص اس کی حمائیت کرے تو اس کی زبان کاٹ دو ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ عدالتیں ایسے ڈاکوئوں کو حیلے بہانوں سے ڈھیل دیتی ہیں اور صحافی ان کی زبان بنکر اُن کی شان میں کالم اور کتابیں لکھتے ہیں۔

جناب عبداللہ فرشی ہنر مند شہزادے کے عنوان سے ایک کہانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تباہ حال ملک ایک بیماراور نحیف شہزادے نے عقل ، علم اور ہنر سے پھر آباد کیا ۔ ہنر مندوں کو مراعات دیں ، علم کے لیے سکول اور مدرسے کھولے ، پانی جمع کرنے کے لیے تالاب بنوائے ، ویدوں اور حکیموں کو تحفظ فراہم کیا تاکہ وہ جنگلوں سے جڑی بوٹیاں لا کر کشید کریں اور عوام کی صحت کا خیال رکھیں۔ کسانوں کو بیج اور بیل فراہم کیے تو چند سالوں میں ملک میں خوشحالی کی بہار آگئی۔

جناب مولوی عبداللہ فرشی لکھتے ہیں کہ دستکار ، فنکار اور ہنر مند بادشاہ بن جائے تو ملک تباہ ہو جاتا ہے۔ وہ سب سے پہلے دستکاروں ، فنکاروں اور ہنر مندوں کا استحصال کرتا ہے اور عوام کو تباہ حال کر دیتا ہے ۔ اگر حکمران ہنر سیکھ لے تو وہ ہنرمندی کو فروغ دیتا ہے اور عوام خوشحال ہوجاتے ہیں ۔ایک داستان میں لکھتے ہیں کہ ڈاکوئوں اور ٹھگوں کے سردار نے عادل بادشاہ کو قتل کیا اور خود بادشاہ بن گیا۔ ٹھگوں اور ڈاکوئوں کا ایک ٹولہ وزیر اور مشیر بن گیا اور چند سالوں میںملک تباہ ہوگیا۔ آگے لکھتے ہیں کہ بادشاہ کے لیے ضروری ہے کہ ٹھگ اور ڈاکو جہاں بھی ہوں انہیں فوراً ختم کر دیا جائے اس سے پہلے کہ وہ ایک قبیلہ یا فوج بن کر ملک کا نظام ہی تباہ کرڈالیں۔

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ کا تعلق لوہانہ راجپوت خاندا ن سے تھا ۔ شیر شاہ سوری نے پنجاب پر یلغار کی تو آپ کا خاندان موجودہ سائیوال سے ہجرت کر کے سندھ چلا گیا ۔ آپ کے خاندان کے کچھ افراد کراچی اور باقی بمبئی چلے گئے اور تجارت کے پیشے سے منسلک ہو گئے ۔

قائداعظم ؒکے کردارو عمل پر سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور آنیوالے دور میں بہت کچھ لکھے جانے کی گنجائش ہے ۔ قائداعظم ؒ جیسے رہنمائوں کی زندگی کے کئی پہلو ہوتے ہیں جو وقت اور حالات کے مطابق سامنے آتے ہیں اور تحقیق کاعمل جاری رہتا ہے ۔

سٹینلے وال پورٹ(Stanly Walport) نے چند لفظوں میں قائداعظم ؒ کی ساری زندگی کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے لکھا کہ:۔ Few individuals significantly alter the course of history. Fewer still modify the map of world. Hardly anyone can be credited with creating a nation state. Muhammad Ali Jannah did the both.

بیرسٹر ایس کے موجمدار ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف انڈیا نے اپنی تصنیف ’’جناح اور گاندھی ‘‘ میں قائداعظم ؒ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا کہ جناح عزم و استقلال کی چٹان اور گاندھی سیاسی شعبدہ باز تھے۔ جنا ح نے پاکستان کا مقدمہ دلیل اور دلائل کے بل بوتے پر لڑااور جیت گے ۔ گاندھی کو ہارتے دیکھ نہرو اور پٹیل نے انہیں عملاً سیاست سے الگ کر دیا اور کانگرس کی قیادت سنبھال لی۔

خشونت سنگھ نے لکھا کہ قائداعظم ؒ چاہتے تھے کہ میں بھارت کے بجائے پاکستان میں رہوں اور کچھ عرصہ تک لاہور میں پریکٹس کے بعد وہ مجھے ہائی کورٹ کا جج تعینات کرنا چاہتے تھے ۔ ایسی ہی آفر مجھے دلی سے بھی تھی جس کی بنا پر میں دلی چلا گیا۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ نہرو کی لگا میں پٹیل اور کرشنا مینن کے ہاتھ ہیں ۔ بڑی تک و دو کے بعد مجھے لندن کے بھارتی سفارتخانے میں پریش اتاشی کی نوکری ملی جو کسی بھی لحاظ سے اچھا تجربہ نہ تھا ۔ خشونت سنگھ نے لکھا کہ قائداعظم ؒ ایک عظیم مدبر، نفیس انسان اور عزم واستقلا ل کا ہمالیہ تھے۔ علامہ اقبال ؒ کے متعلق لکھتے ہیں کہ وہ میرے گروہیں ۔اقبالؒ مستقبل پر نظر رکھنے والے انسانیت کے ترجمان اور شاعر تھے۔ میں اقبال ؒ کا اس لیے بھی مداح ہوں کہ انہوں نے قائداعظم ؒکی سوانح صرف ایک ہی شعر میں بیان کر دی۔

نگاہ بلند ، سخن دلنوار ، جان پرسوز یہی ہے رخت سفر میر کاروان کے لیے اقبال ؒ کا یہ شعر آفاقی اور دائمی ہے ۔ جس شخص میں یہ خوبیاں نہیں وہ قائد یا لیڈ کہلوانے کا حقدار نہیں ۔ اگر کوئی قوم ان خوبیوں سے مبّرا کسی شخص کو قائد یا لیڈر مان کر اُس کی پیروی میں اُلجھ جائے تو اس کا انجام درد ناک ہوگا۔ ولی ّموسیٰ کاشمیری کہتے ہیں کہ میں نے ساری دنیا کے سیاسی لیڈروں اور حکمرانوں میں ایسی خوبیان تلاش کیں مگر قائداعظم ؒ کے سوا کسی پر نظر نہ ٹھہری۔

تاریخ کے تناطر میں دیکھا جائے تو جناح ؒ اور پاکستان ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔ قائداعظم ؒ کے بغیر پاکستان کا وجود پذیر ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن تھا۔ قائداعظم ؒ کی سیاسی بصیر ت ، تدبر اور استقلال ایک ایسی چٹان تھی جسے کانگرس ، برٹش اینڈ برٹش انڈین حکومت اور اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز عقل مندوں کا سامنا تھا۔ برطانیہ میں لارڈ مائونٹ بیٹن کو سیاست کا مینار سمجھا جاتا تھا۔ 22مارچ1947؁ء کو مائونٹ بیٹن انڈیا میں وارد ہوا اورآتے ہی 35مختلف شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد تقسیم ہند کو رکوانا اور متحدہ ہندوستان کو قائم رکھنا تھا۔ علمائے دیو بند، سرحدی گاندھی، عبدالصمد اچکزائی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا جس میں مسلمانوں کی اکثریت تھی ، شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور جی ایم سیّد وائسرائے ہند سے متفق تھے ۔ ان کے علاوہ نامور سیاسی اور سماجی مسلمان کارکن اور افغان حکومت تقسیم ہند کے مخالف اور کانگرس کے ہمنوا تھے۔ افغان حکومت کا دعویٰ تھا کہ پختونخوا اور بلوچستان سمیت اٹک پار مارگلہ کے سلسلہ کوہ تک کا علاقہ افغانستان میں ضم کر دیا جائے۔

اسی سلسلہ میں گاندھی نے وائسرائے کو مشورہ دیا کہ قائداعظم ؒ سے ملاقات کی جائے اور بھارت کو متحد رکھنے کے لیے قائداعظم ؒ کوعمر بھر کے لیے متحدہ ہندوستان کا وزیراعظم مقرر کر دیا ۔

Transfer of power vol x published by her majesty’s stationary office, London in 1981 and Alan campbell Johnson’s mission with mounbatten.

کے مطابق وائسرے نے قائداعظم ؒ سے ملاقات کے بعد حکومت برطانیہ کو لکھا کہ:۔

Jinnah was most rigid, haughty and disdainful frame of mind. Jinnah has even warned Mountbatten that if the Muslim League’s demand for Pakistan was ignored or any option other than Pakistan was resorted to, British India would perish for which he would not be responsible. The respnsibility for this, as a matter of fact, Jinnah argude, would lie on none but the British who were running the affairs of state and of the Empire.

وائسرائے ہند نے اپنے خط میں لکھا کہ جناح کی قیادت میں مسلمان متحد ہیں اور تقسیم کے سوا کچھ قبول کرنے کی خواہش نہیں رکھتے ۔ میں نے اس گفتگو کے نتیجے میں جو فیصلہ کیا ہے کانگرس کو بھی مطلع کر دیا ہے۔ 3جون1947؁ء کے دن کانگر س کے مشورے سے تقسیم ہند کے فارمولے کو حتمی شکل دی جائے گی جس کے سوا کوئی منصوبہ بے عمل ہوگا۔

ڈاکٹر صفدر محمود کا مضمون ’’حسد ایک قومی مرض‘‘ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ برطانوی وزیراعظم لارڈ ایٹلی نے 15مارچ 1946؁ء کو ہاؤس آف کامنز میں کابینہ مشن کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے بڑی رعونت سے بیان کیا کہ :۔

“We are mindfull of the rights of minorties on the other hand we cannot allow a minotiry to place a veto on advance of a majority”

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ درج بالا بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ بر طانوی استعمار مسلمانوں کو الگ قوم تسلیم کرنے سے انکاری تھا اور وہ مسلمانوں کو متحدہ ہندوستان میں اقلیتی درجے پر رکھنے کی پوری کوشش میں تھا۔ دوسری جانب قائداعظمؒ علامہ اقبال ؒ کے نظریہ ملت اور مسلمانوں کے عظمت و وقار کی بحالی کے لیے الگ وطن کو حتمی شکل دینے کے لیے میدان میں اُتر چُکے تھے اور کسی بھی صورت میں اپنے مشن سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے۔بر طانوی حکومت نے کابینہ مشن جس کا مقصد تقسیم ہند کو رکوانہ تھا میں سر پیتھک لارنس کو شامل کیا جو انتہائی مکار و عیار سیاسی بازی گر تھا مگر وہ قائداعظم ؒ کا سامنا نہ کر سکا۔

“The last days of British Raj”کے مصنف لیو نارڈو موزلے لکھتا ہے کہ کابینہ مشن کے ممبران کی قائداعظم ؒ کے نام سے ٹانگیں کانپتی تھیں۔ لکھتا ہے کہ:۔

“Jinnah depressed them by his cold, arrogant, insistent demand for Pakistan or nothing. An encounter with Jinnah cast them down”

ڈاکٹر صفدر محمودلکھتے ہیں کہ قائداعظم ؒ نے مذاکرات کے ٹیبل کو میدان جنگ میں بدل دیا اور انگریزوں اور کانگرسیوں کی ہر چال کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ ایک جنگجو جرنیل کی طرح دلائل سے ایسے حملے کیے کہ دونوں حملہ آور ںنے پسپائی اختیار کرلی۔ نتیجتاً جب کیبنٹ مشن پلان منظر عام پر آیا تو کانگرس کی بنیاد ہل گئی۔ ہندوئوں نے مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار مولانا آزاد کو ٹھہرایا اور انہیں فی الفور کانگرس کی صدارت سے ہٹاکر نہرو کو صدر نامزد کر دیا۔ نہرونے اپنی پریس کانفرنس میں کیبنٹ مشن پلان کے الفاظ تو وہی رہنے دیے مگر معنی بدل دیے۔لیونا رڈوموزلے لفظوں کے ہیر پھیرپر قائداعظم ؒ کے رد عمل کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

Mr. Jinnah reacted to Nehru’s “Statment like an army leader who has come in for armistic discussion under a flag of truce and finds himself looking down the barrel of cocked revolver.

کچھ عرصہ پہلے مشہور صحافی حامد میر نے اپے پروگراموں میں ارد شیر کاؤس جی اور پروفیسر ڈاکٹر ھو د بھائی کواپنے شو میں مدعو کرنا شروع کیا اور یہ سلسلہ وقفے وقفے سے طویل عرصہ تک چلتا رہا ۔ دونوں مہمانوں سے کچھ ایسے سوالات پوچھے جاتے جن کا مقصد پاکستان اور قائداعظم ؒ کو تنقید کا نشانہ بنانا اور توہین کرنا تھا۔ حامد میر کا یہ مشن امن کی آشا کی تبلیغ اور پڑھے لکھے طبقے کو بتانا تھا کہ تقسیم ہند ایک غیر فطری اور غیر منصفانہ عمل تھا جس کے نتیجے میں برصغیر پاک وہند میں امن کو کئی طرح کے خطرات لاحق ہوئے ۔ بعد میں حامد میر کا بنگلہ دیش جا کر حسینہ واجد سے تمغہ وصول کرنا اور پاکستان مخالف تقریرکرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمار ا دانشور طبقہ خاص کر سوشلسٹ نظریات کے حامل خاندانو ں کو سترسال بعد بھی پاکستان سے کوئی لگائو نہیں۔ یہ لوگ کیبنٹ مشن کو آج بھی اپنی سوچ و فکر کا حصہ بنائے اغیار کی ہمنوائی پر فخر کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر صفد ر قائداعظم ؒ کی بصیرت اور مستقبل بینی کا ذکر کرتے ہوئے اُن کے بیان کو دھراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ نے مسلم عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ۔

“The time has come for Muslim Nation to resort to direct action to achieve pakistan and get rid of the present slavery under the British and contemplated futur coste Hindu dominaiton”

ہمارے صحافیوں ، خود ساختہ دانشوروں اور کھرب پتی سیاستدانوں نے شاید ہی کبھی قائداعظمؒ کو اُن کی شخصیت ، کردار اور مستقبل بینی کے حوالے سے پڑھا ہو ۔ ہمارے دانشور ستر سالوں سے قائداعظم ؒ کو سیکو لر سیاستدان اور لیڈر بنانے کی جستجو میں ہیں۔ جب عقل کے اندھوں اور کتابوں کا بوجھ اٹھانے والے انسان نما جانوروں کو کوئی راستہ نہیں ملتا تو قائداعظم ؒ ، تحریک پاکستان ،افواج پاکستان اور اسلام کو تنقید کا نشانہ بنا کر اسلام اور پاکستان مخالفین سے مال کمانے کا مجرمانہ دھندا شروع کر دیتے ہیں ۔وہ نہیں دیکھتے کہ آج بھارت ، کشمیر اور برما کے مسلمانوں کی کیا حالت ہے۔ فاٹا کے حقوق کی ڈیمانڈ میں کوئی قباعت نہیں۔ ہر پاکستانی کا حق ہے کہ وہ اپنے آئینی ، قانونی اور انسانی حقوق کا مطالبہ کر ے اور ریاست اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کو اولیّت دے ۔انسانی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جہاں امن کی بہار آئی اور عوام کو خوشحالی کی اُمید لگی وہاں بدامنی اور مایوسی پھیلانے والے عناصر نے دخل اندازی شروع کر دی ۔ اس میں شک نہیں کہ ڈیورنڈ لائن ، پاک ایران بارڈ ، راجستان سے سیالکوٹ تک پاک بھارت سرحد، لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف ، پاک چائینہ سرحد کے آرپار ، واخان پٹی کے دونوں جانب حتیٰ کہ گوادر، تربت ، جیوانی اور عمان کے لوگوں کے درمیان حائل سمندر کے آرپار قبائل کی رشتہ داریاں اورایک دوسرے کیساتھ خونی رشتے ہیں۔ ایک جیسا رہن سہن ہے، ایک ہی کلچر و ثقافت ہے مگر سرحدوں کا احترام انٹرنیشنل قوانین کا احترام ، پڑوسی ہونے کے ناطے ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت حکومتوں کا فرض ہے ۔ کسی نے سچ کہا کہ پڑوسی نہیں بدلے جاسکتے کرایہ دار بدل جاتے ہیں ۔ بد قسمتی سے افغانستان اور بھارت نے ہمیں ایک پڑوسی ملک تسلیم کرنے کے بجائے کرایہ دار سمجھ رکھا ہے ۔ایک طرف گریٹر افغانستان اور دوسری طرف اکھنڈر بھارت کا خبط خطے کے امن کو تہہ و بالا کیے ہوئے ہے اور خود ہمارے ملک کے اندر ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو بھارت اور افغانستان کے نظریے کو درست تسلیم کرتے ہیں ۔ میاں نواز شریف اور اُن کے خاندان کی بھارت نوازی سے کون واقف نہیں مگر ٹیلی ویژن چینلوں پر بیٹھے بھو نپو کہتے نہیں تھکتے کہ یہ ملک بھی نواز شریف کا ہے اور مستقبل بھی نواز شریف ہی کا ہے۔ اگر آلو گوشت کھانے سے سرحد مٹ سکتی ہے تو پھر وہ پاکستان کہاں ہے جو قائداعظم ؒ نے مذاکرات کے ٹیبل پر بحثیت سیاسی جرنیل لڑ کر جیتا تھا ۔ اگر بلاول بھٹو، مریم نواز اور منظور پشتین کی ایک ہی ڈیمانڈ ہے تو باشعور پاکستانی قوم ، پاکستان کا آئین اور آزاد عدلیہ کہاں ہے ۔ عمران خان کی خاموشی ، مولانافضل الرحمن ، اسفند یارولی ، آفتاب شیر پائو اور مولانا سراج الحق کی پی ٹی ایم کو تھپکی اور فرحت اللہ بابر کی بے چینی آخر کس مشن کی تکمیل کا شاخسانہ ہے۔

بھارت میں پانچ سو زبانیں اور پا نچ ہزار قومیں اور قبیلے بستے ہیں جن کا کلچر ، ثقافت ، تعلیم و تمدن الگ الگ ہیں مگر ریاست کو کوئی خطر ہ نہیں ۔ پاکستان میں زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں سندھی، پختون ، پنجابی ، بلوچ ، کشمیری، گلگتی ، بلتی اور دیگر قوموں اور قبیلوں کے لوگ ادنیٰ سے اعلیٰ عہدوں پر فائز نہ ہوں ۔ بھارت میں کئی ایسے قبائل ہیں جنہیں سرکاری نوکریوں تک رسائی نہیں ۔ یہی حال افغانستان و ایران کا ہے۔ افغانستان میں صرف حکمران طبقے کے لوگ حکومتی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہیں ۔ حکومت بدلتے ہی سارا نظام بدل جاتا ہے ۔ ایران میں سنی ، بہائی اور پارسی مذاہب کے لوگوں کو سرکاری نوکریوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں تک رسائی حاصل نہیں۔

ایک طرف تنگ نظر بھارت اور احسان فراموش افغانستان ہے جو خود امریکی بیساکھیوں کے سہارے کھڑا اور عربوں کے صدقہ و خیرات پر زندہ ہے ۔مگر اُسے پاکستان کے پختونوں کے حقوق کا غم کھائے جا رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستا ن ہے جو پچاس لاکھ سے زیادہ افغانوں کو اپنا دینی اور مذہبی بھا ئی سمجھ کر پچھلے چالیس سالوں سے خدمت کر رہا ہے۔ یہی حال بھارت کا بھی ہے۔ ساری بھارتی آبادی کو دن میں ایک وقت کا کھانا نصیب نہیںہوتا ہے۔ نوے فیصد لوگ دو کپڑوں سے تن ڈھانپتے ہیں مگر پختونوں اور بلوچوں کے لیے بھارت دن رات بے چین ہے۔ بھارت اور افغانستان کی پاکستان مخالف شیطانی چالوں میں پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور صحافیوں کا ایک مخصوص ٹولہ بیرونی آقائو ں کے اشاروں پر وطن دشمنی پر اُتر آیا ہے ۔

اس ساری بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ قائداعظم ؒنے جو پھلدار ، پھولدار اور سایہ دار درخت لگا یا تھا ہم سترسالوں سے کبھی اُس کی جڑیں ، کبھی ٹہنیاں کاٹتے ہیں، کبھی اس کے پھولوں کو پائو ں تلے روندتے ہیں اور کبھی پھل چوری کر کے دوسرے ملکوں کو بھجوا دیتے ہیں۔ یہ صرف پختونوں کا نہیں بلکہ سارے پاکستانیوں کا المیہ ہے کہ ہم صالح قیادت کے چنائو میں نا کام ہوئے ہیں ۔ہم اُن لوگوں کو قائدتسلیم کر لیتے ہیں جو غیروں کے ایجنٹ اور ملک و قوم کے حقیقی دشمن ہیں۔

قائداعظم ؒ کے بعد اس قوم کو کوئی لیڈر نہیں ملا۔ قائداعطمؒ نے نہ کوئی جانشین چھوڑا اور نہ ہی قائداعظم ؒ کسی کے جانشین تھے۔ اُن کی رحلت کے بعد ملک کے حالات بدل گئے اور طوائف الملوکی کا دور شروع ہو گیا۔ قائد کی موت سے مایوسی کی فضاء پیدا ہوئی جس کے اثرات آج تک قائم ہیں۔ سکندر مرزا سے لیکر میاں نواز شریف تک نے اس مایوسی کو برقرار رکھا اور قوم حقیقی قیادت سے محروم رہی۔ پاکستان میں کسی بھی قوم یا قبیلے کا فرد دوسری بار گوشہ گمنامی سے اُٹھ کر برسر اقتدار نہیں آیا۔ بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو براستہ لندن اورو اشنگٹن اقتدار میں آئیں اور مرد حر کی پالیسیوں کی وجہ سے ناکام ہوگئی ۔دوسری بار ٹونی بلئیر ، کونڈا لیزارائس اور سعود ی حکومت کی کرم فرمائی کام آئی اور دونوں جلاوطن لیڈر ملک میں واپس آگئے ۔ این آراو کی برکت سے پہلے آصف علی زرداری اور پھر میاں نواز شریف حکمران بنے اور ملک کو معاشی ، سیاسی ، ثقافتی اور اخلاقی لحاظ سے برباد کر دیا ۔ میاں صاحب کی سیاست جنرل حمید گل اور جنر ل جیلانی کی شفقت اور جنرل ضیأ الحق کی محبت کا نتیجہ تھی اور جب تک میاں خاندان محبت کی اس زنجیر میں بندھا رہا اقتدار کا سنگھا سن بھی قائم رہا۔ بقول جناب ضیا ء شاہد کے، بڑے میاں صاحب نے بیٹے کی وزارت عظمیٰ پر تین ارب لگائے اور نو ارب کما لیے ۔کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ ایک مفلس اور مقروض قوم نے چھ ارب میں وزیراعظم خریدا اور اسے مزید چھ سو ارب کمانے کا موقع دیا۔ جناب زاردی نے کتنا کمایا اُسکا کوئی حساب ہی نہیں۔ مولانا فضل الرحمن ، اے این پی ، شیرپائو، اچکزئی اور ایم کیوایم کی حمائت کتنے اربوں میں خریدی گئی اس پر کسی کی نظر ہی نہیں گئی ۔ صحافیوں اور صحافتی اداروں کو بھی لوٹ سیل سے حصہ دیا گیا جس کے انڈیکیٹر بڑے واضح اور نمایاں ہیں مگر آزاد عدلیہ اور نیب آزادی صحافت کو بہر حال مقدس سمجھتے ہیں ۔ صحافیوں کے بیرون ملک اثاثے ، بچوں کی تعلیم اور بیگمات کے علاج اور شاپنگ بھی آزادی صحافت کا حصہ سمجھ کر اسے نظر انداز کیا جاتا ہے۔

چند صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ Openion Makerہیں ۔ ان میں سے ایک صحافی کے پاس کالی چادر اورسپیشل فورس کے چھ ریٹائرڈگارڈ ہیں۔ہر گارڈ ایک لاکھ تنخواہ اور دیگر مراعات لیتا ہے ۔ بھارتی اور افغان میڈیا کے علاوہ بی بی سی اور وائس آف امریکہ اُن کے اقوال پر مبنی تجزیات پیش کرتے ہیں۔ ملک کے اندر حال یہ ہے کہ جونہی وہ ٹیلی ویژن پر جلوہ افروز ہوتے ہیں تو محب وطن شہری چینل بدل لیتے ہیں۔

میاں اورزرداری خاندان کبھی حکمر ان نہیں رہا ۔ اسی طرح قائداعظم ؒ کے بعد چار فوجی جرنیل آئے جن کا تعلق مڈل کلاس سے تھا۔ ترینوں اور قزلباشوں کا تعلق مارشل ریس سے تو ہے مگر حکمران کبھی نہیں رہے۔ اسی طرح ککے زئی قبیلے کا پیشہ کبھی سپاہ گری نہیں بلکہ قالین بافی رہا ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد اور جسٹس منیر کے علاوہ میجر خورشید انور کا تعلق اسی خاندان سے تھا ۔ بٹ ، ڈار اور خواجے کاروباری لوگ ہیں ۔ آبائی وطن کشمیر میں بھی یہ قبیلے کبھی حکمران نہیں رہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بھٹو بھٹیا نہ ضلع جالندھر کے بھٹی راجپوت ہیںآرائیں نہیں ۔ ڈاکٹر شبیر چوہدری اور جناب اثر چوہان نے روزنامہ نوائے وقت میں ا س موضوع پر دومفصل کالم لکھے ہیں ۔ بوجہ جناب بھٹو بھی اَرائیں کہلوانا پسند کرتے تھے اور اپنے دور اقتدار میں کل پاکستان انجمن اَرائیاں کے صدر بھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جناب بھٹو کو انجمن کی صدارت کے لیے جنرل ضیأ الحق ، جنرل فیض علی چشتی اور سابق صوبائی اور مرکزی وزیر میاں زمان نے چنا اور برادری سے منتخب کروایا۔

وزیراعظم عمران خان نیازی کو یہ اعزا حاصل ہے کہ وہ مارشل ریس سے تعلق رکھنے کے علاوہ حکمران قبیلے سے تعلق رکھتا ہے ۔ سات سوسال پہلے سردار حبیب اللہ خان نیازی قندہار سے لیکر لکی مروت تک کے علاقے کا گورنر اور امیر تیمور کی فوج کا اہم جرنیل تھا۔ حبیب اللہ خان نیازی بہادر جرنیل اور اچھا حکمران تھا مگرا ُ س کے برعکس سردار ہیبت خان نیازی انتہا ئی سفاک ، بدعہد اور ظالم حکمران تھا۔ ہیبت خان نیازی پنجاب کا گورنر تھا جس میں موجود ہ صوبہ پختونخوا بشمول وزیرستان ، بنوں ، شمالی بلوچستان اور شمالی سندھ کے بیشتر علاقے شامل تھے۔ وہ ہر کام تلوار سے کرتا اور کبھی کسی پر رحم نہ کھاتا تھا۔ تاریخ کے مطابق ہیبت خان نیازی نے دربا ر عالیہ پاک پتن شریف کے متولی شیخ محمد ابراہیم ؒ سے بد عہدی کی اوراُن کی بددعا کے نتیجے میں ذلت آمیز موت مرا ۔

عمران خان نیازی اس لڑی کا تیسرا حکمران ہے جسے اُسی سرزمین پر حکومت ملی جہاں اُس کے جد اعلیٰ حبیب اللہ خان نیازی ، ہیبت خان نیازی اور عیسیٰ خان نیازی نے حکمرانی کی مگر آخر الذکر دونوں بھائیوں نے تاریخ میں کوئی اچھا نام نہ چھوڑا۔ بد عہدی، بے وفائی ، سفاکی اورظلم دونوں بھائیوں کا خاصا تھا۔ اگرہم جناب ذوالفقار علی بھٹو ، آصف علی زرداری اور میاں برادران کی سیاست اور طریق حکمرانی کا ہیبت خان نیازی، عیسیٰ خان نیازی اور پنجاب و کشمیر کے ایک ظالم حکمران مہر گل ہن کا موازنہ کریں تو سارے کردار ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ اسرار احمد راجہ نے اپنی کتاب ’’کشمیر کا المیہ ‘‘ میںلکھا ہے کہ جس طرح مہر گل ہن پیر پنجال کے قریب واقع ہستی ونج کے مقام پر بیٹھا سو ہاتھیوں کو ہزاروں فٹ بلند چوٹی سے گرا کر لطف اندوز ہوتا رہا ایسے ہی میاں برادران اور اُن کی کابینہ کے اہم ارکان ماڈل ٹائون کے قتل عام سے لطف اندوز ہو تے رہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ اتفاقاً مہر گل اور میاں برادران کا آبائی پیشہ ایک ہی تھا اور دونوں خاندان آہن گری کے پیشے سے تعلق رکھتے تھے۔

سندھ میں رائو انوار، آصف علی زرداری کا بیٹا اور عزیز بلوچ بھائی تھا تو الطاف بھائی ان سب کے بڑے بھائی تھے۔پنجاب میں عابد باکسر اور بقول ضیا شاہدکے بابووارث بدمعاش، محترم خواجہ سعد رفیق وہی کام کرتے تھے جو ہیبت نیازی شیر شاہ سوری کے لیے کرتاتھا۔

سرکاری ریکارڈکے مطابق پاکستان میں بم دھماکوںکی ابتداء نیشنل عوامی پارٹی نے کی اور تعلیمی ادارے بزور بندوق جماعت اسلامی نے فتح کیے ۔جناب ذوالفقار علی بھٹو نے فیڈرل سیکیورٹی فورس کی بنیاد رکھی جس کے جیالوں کے سر سینکڑوں بے گناہ انسانوں کا خون ہے۔ بھٹو صاحب کے بعد شاہنواز بھٹو نے الذولفقار بنائی جس کے کارناموں کی تفصیل بھٹو صاحب کے مشیر برائے امور نوجواناں جناب راجہ انور نے اپنی تصنیف ’’دہشت گرد شہزادہ ‘‘ میں بیان کی ہے ۔ تحریک طالبان پاکستان نے انجمن سپاہ صحابہ کی کوکھ سے جنم لیا اور پھر غیروں نے اسے اپنا لیا۔

جنر ل پرویز مشرف کی غلط پالیسوں کے نتیجے میں دہشت گرد تنظیمیں مضبوط ہوئیں اور لاکھوں پاکستانیوں کے خون نے حکمران طبقے کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتا۔ طویل جدوجہد اور عظیم قربانیوں کے بعد امن کا جھونکا آیا ہی تھا کہ رائو انوار نے ایک بار پھراسے بدامنی میں بدل دیا۔ نقیب اللہ مسعود کے قتل کے بعد مسعود تحفظ تحریک کا آغاز ہوا اور پھر منظور پشتین کا چہرہ سامنے آگیا۔ نقیب اللہ مرحوم کو بھول کر مسعود تحریک نے پختون تحفظ تحریک کا روپ دھار لیا تو ملکی اور غیر ملکی میڈیا سمیت پاکستان پیپلز پارٹی ، نواز لیگ اور خود حکمران جماعت کے کچھ افراد نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ بی بی سی اور وائس آف امریکہ سمیت دنیا بھر کے پاکستان مخالف میڈیا نے پاک فوج پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کر دیا مگرپی ٹی آئی حکومت نے کسی کو بھی موثر جواب نہ دیا۔ بی بی سی اوروائس آف امریکہ جیسے پاکستان مخالف ادارے ہمیشہ سے ہی پاکستان کے دشمن رہے ہیں۔ انہیں کبھی کشمیر ، فلسطین ، افغانستان ، بھارت اور برما میں مسلمانوں کے قتل عام پر لکھنے اور بولنے کی توفیق نہ ہوئی ۔ بی بی سی پر بولنے والے بھو نپو کوئی اور نہیں بلکہ پاکستانی ہی ہیں جو چند ٹکوں کی خاطر ایمان کا سودا کیے بیٹھے ہیں ۔ بی بی سی اور دیگر پاکستان مخالف اداروں کو پاکستانی ہی شرانگیز مواد مہیا کرتے ہیں اور حکمران جماعتوں کے اہم افراد اس کی تائید کرتے ہیں۔ بلاو ل بھٹو اور مریم نواز کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ کسقدر محب وطن اور پاکستانی ہیں ۔ ایک خود ساختہ Opinion Makerاینکر کے پروگرام میں ن لیگ کے غلام دستگیر خان نے کہا کہ فاٹا کے متعلق جو کچھ فوج ہمیں بتاتی رہی ہے اور ہم یقین کرتے رہے اب اس پر تحفظات ہیں کہ کیا یہ واقعی سچی رپورٹیں تھیں؟Opinion Maker اینکر نے کہا کہ کیا آپ کا خیال ہے کہ فوج نے اصل بات نہیں بتائی تون لیگی لیڈر نے کہا کہ موجودہ حالات یعنی پی ٹی ایم کے حوالے سے فوج کا جو رویہ ہے اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔

قرآن کریم میں حضرت صالح ؑ کے حوالے سے ذکر ہے کہ اُن کی قوم کو ورغلانے اور راہ راست سے ہٹانے والے نو لوگ تھے جنہوں نے باہم معائدہ کر رکھا تھا کہ وہ کسی بھی صورت میں ملک میں امن قائم نہیں ہونے دینگے ۔ ایسا ہی احوال فرعون کا بھی تھا۔ وہ اکثرحضرت موسیٰ ؑکی بات سننے اور خدا پر ایمان لانے کے متعلق سوچتا تو اُس کے چند درباری اسے قائل کر لیتے کہ اسطرح اس کی عظمت اور شان وشوکت میں فرق آجائے گا ۔ قارون محض اس لیے حضرت موسیٰ ؑ کا مخالف بن گیا چونکہ حضرت موسیٰ ؑ نے زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا ۔ فرمایا اللہ تمہیں زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے کہ تا کہ تم اپنے مال کو صاف کر لو اور حلال روزی کھاؤ۔ تمہارے مالوں میں غریب اور بے سہاروں کا حصہ ہے۔ انہیں ادا کرنا تم پر فرض ہے ۔ فرعون کے دربار میں نو بڑے جادوگر تھے اور کفار مکہ کے بھی نو ہی سردار تھے ۔دیکھا جائے تو ہمارے اہل الرائے بھی نوہی ہیں جنہیں اسلام، پاکستان ، افواج پاکستان اور نظریہ پاکستان سے بغض ، حسد اور کینہ ہے ۔ وہ کسی نہ کسی بہانے ایسے لوگوں کو اپنے پروگراموں میں مدعو کر کے کینہ پروری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنی تحریروں کے ذریعے اپنا بغض کھل کر بیان کرتے ہیں ۔ان کی پیٹھ پر کھڑے سیاستدان اور پاکستان مخالف ملک اور میڈیا ہائوسز ان کی رائے پر اپنا بیانیہ ترتیب دیتے ہیں اور پاکستان مخالف پروپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں ۔ غیر ملکی پراپیگنڈہ اور پاکستان مخالف بیانات پر ان کی ایک ہی رائے ہے کہ ’’ہاں ‘‘ وہ سچ کہتے ہیں ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی ایک صاحب الرائے دانشور سے کسی نے سوال کیا تو فرمانے لگے کہ ہمیں کھلے دل سے عالمی رائے عامہ پر متفق ہونا پڑے گا اور مروجہ سوشل ، اکنامک اور دیگر جدید رجحانات کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ زکوٰۃ کی رقم اکثر غلط ہاتھوں میں چلی جاتی ہے جس کا تدارک ضروری ہے ۔ اسی طرح صدقہ و خیرات کا بھی معاملہ ہے۔ اُن کی رائے تھی کہ صدقہ ، خیرات اور زکوٰۃ کو چیرٹی فنڈز قرار دیا جائے اوراین جی او کے ذریعے اس فنڈ کو تقسیم کیا جائے ۔ اُن کایہ بھی خیال تھا کہ غامدی برانڈ اسلام وقت کی ضرورت ہے ۔ جب پوچھا گیا کہ گھر ( پاکستان ) میں کیا خرابی ہے تو فرمایا اس پر تعمیری بحث کی ضرورت ہے جس میں مذہب کا عنصر شامل نہ ہو ۔ دیکھا جائے تو سارا دکھ دین اور دینی اقدار ہیں ورنہ ملک کے اندر جتنی دہشت گرد کاروائیاں ہو رہی ہیں اُن کی فنڈنگ باہر سے ہوتی ہے اور اندرون ملک اُن کے حمائیتی بلا خوف و خطر اہل الرائے بن کر اُن کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔وہ نو کاٹولہ جس کی رائے ہے کہ کسی بھی وطن دشمن ، قومی لیڈر اور غنڈے کو غدار کہنا جرم ہے اور کسی کو اس پر رائے دینے کاحق نہیں۔

دیکھا جائے تو نوکا ٹولہ ملک میں سیاسی افراتفری ، غیر یقینی حالات اور کرپٹ مافیا کی آبیاری کا ذمہ دار ہے جس کی بیخ کنی ضروری ہے۔ حکومت وقت میں اتنی سکت نہیں چونکہ اُس کی پوزیشن انتہائی کمزور اور اُس کی اپنی صفوں میں انتشار ہے۔ یہ کام حقیقی اور محب وطن اہل الرائے یا علمائے حق اور عوام کا دکھ درد رکھنے والے اہل علم کا ہے جو کسی غیر ملکی ادارے کے تنخواہ دار نہ ہوں اور جو حقیقت کو سمجھ کر عوام کی رہنمائی کا حوصلہ رکھتے ہوں۔

سات سوسال بعد برسراقتدار آنے والا نیازی کئی حوالوں سے منفراور کچھ حوالوں سے خود غرض ، لا تعلق اور ناسمجھ ہے ۔ عمران خان نیازی میں حبیب خان نیازی جیسی صلاحتیں تو ہیں مگر طریق استعمال سے نابلد ہے۔ عمران کے حواری اُسے ہیبت خان اور عیسیٰ خان نیازی بنانے کی پوری کوشش میں ہیں۔نوکرشاہی خاص کر پولیس ایسے کاموں کی ماہر ہے جو کسی بھی سیاسی آقا کے اشارے پر عمران خان کو مفلوج کر نے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ماضی میں ایوب خان ، بھٹو اور پرویز مشرف کی حکومتیں بیرونی اشاروں اور اندرونی سازشوں کے نتیجہ میں ہی ختم ہوئیں۔اس میں شک نہیں کہ عمران خان کے انتخابی نعرے قابل عمل نہ تھے اور نہ اُس کی ٹیم میں خود اعتماد ی اور یکجہتی کا کوئی عنصر تھا۔ ہارون الرشید اور اُس جیسی سو چ کے حامل دانشور اُسے اپنے نظریے اور فکری اساس پر چلا کر بادشاہ گر کاکردارادا کرنا چاہتے تھے۔ وہ لوگ جو بڑے صحافیوں اور ادیبوں کو مسلسل پڑھ رہے وہ جاتنے ہیں کہ بڑے قلم کاروں کا کبھی ایک قبلہ نہیں رہا۔ ہارون الرشید مکمل پاکستانی ہیں اور وسیع مطالعہ کے حامل دانشور ہیں مگر فکر و نظر کے حوالے سے مستقل مزاج نہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ اُن کے مزاج میں علمی تکبر اور خود غرضی کا عنصر غالب ہے۔ جیسا کہ پچھلے ابواب میں بیان ہوا ہے کہ ادب کے بغیر علم عالم کو جاہلوں کی صف میں کھڑا کر دیتا ہے۔ سوائے انبیا ء کے ہر عالم پہلے طالب علم ہوتا ہے اور عالم کبھی اپنے علم کی تکمیل کا دعویٰ نہیں کرتا۔ علم کی ہنڈیا تکبر کی آگ سے اُبل کر خالی ہو جاتی ہے اور عالم کا حقیقی علم مخلوق کے لیے نقصان اور فتنے کا باعث بنتا ہے۔ ایسا شخص نہ تو کسی کی صحیح رہنمائی کرسکتا ہے اور نہ ہی اُسکا علم فیض کا موجب بنتا ہے۔ اگر ہم اپنے اردگرد نظر ڈالیںتو ایسے علماء کی ایک فوج علم برائے فروخت کا اشتہار بنی اخبارات ، ٹیلی ویژن چینلوں اور مختلف تقریبات میں جلوہ افروز نظر آئے گی مگر فرد اور معاشرے کے چلن پر ان علماء کی تقریروں ، تحریروں اور کردار وعمل کا کوئی اثر نہیں ۔ فرداور معاشرہ تنزلی کا شکار ہے جس کی وجہ سے ریاست روبہ زوال ہے۔ ریاست کا نظام چلانے والا ہرشعبہ کرپٹ افراد سے بھرا پڑا ہے اور کرپٹ سرکاری اور سیاسی افسروں ، اہلکاروں اورکارندوں کا اَن دیکھا اتحاد ملکی نظام اپنی مرضی سے چلا رہا ہے ۔ جن جرائم پیشہ لوگوں کوجیلوں میں بند ہونا چاہیے تھا وہ اسمبلیوں اور اعلیٰ حکومتی عہدوں پر بیٹھے آئین اور قانون کی آڑ میں حکمرانی کالائسنس لیے بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے سارا نظام زندگی مفلوج ہے۔ عوام نسل در نسل جبر و استحصال کے عادی ہیں اور مزاجاً ایسی حکومت اور حکمرانوں کے عادی ہیں جو میکاولین اور چانکیائی چالوں کے ماہر ہوں ۔ جس معاشرے کے ہیرو اور لیڈر چور، ڈاکو ، غنڈے ، سمگلر اور قانون شکن ہوں اور عوام انہیں مسیحا اور نجات دھند تسلیم کر لیں ایسا معاشرہ اور ریاست کبھی اصلاح اور فلاح کی طرف نہیں لوٹ سکتے۔ جبر کی کوک سے جبر ہی پیدا ہوتا ہے ضروری ہے کہ جبر کے ناسور پر نشتر چلایا جائے اور عوام کو جبر کے اندھیروں سے نکال کر اصلاح و فلاح کی روشن راہوں پر ڈالا جائے۔عوام الناس صحافیوں ، دانشوروں ، ادیبوں ، اداکاروں ، سیاستدانوں، پیروں، سجادہ نشینوں اور علمائے کرام سے متاثر ہوتے ہیں۔

قائداعظمؒ اور علامہ اقبال ؒ کے کردا رو عمل سے مسلمانان ہند متاثر ہوئے تو برطانوی حکومت، کانگرس اور مسلمان علمأو دانشوروں اور سیاستدانوں کے ایک بڑے ٹولے کی مخالفت کے باوجود پاکستان بن گیا ۔ اخباروں میں شائع ہونے والے کالم، تبصرے ، فیچر اور مضامین نے شہروں اور دیہاتوں میں ہر طبقہ فکر کو متاثر کیا اور عوامی رائے کو ہموار کیا۔ دیہاتوں میںسکولوں کے بچے خبریں ، کالم اور مضامین اَن پڑھ لوگوں کو پڑھ کر سناتے اور لوگ ان سے متاثر ہوتے ۔پھر ریڈیو کا زمانہ آیا تو نامور فنکاروں ، ڈرامہ نگاروں، صداکاروں اور ادیبوں نے معاشرے پر علمی ، ادبی ، معاشرتی ، ثقافتی اور سیاسی اثرات مرتب کیے ۔ ٹیلی ویژن بھی کسی حد تک ریڈیو کا معاون رہا مگر سوشل اور آزاد میڈیا نے اخلاقیات ، آداب، معاشرت اور سیاست کی کایاہی پلٹ دی اور کردار کشی کی اس آندھی نے ہر شخص کو بے لباس کر دیا۔

دیگر قلمکاروں کی طرح جناب ہارون الرشید کے کالموں میں ادب، تصوف، اصلاح معاشرہ اور فلاح انسانیت کا گہر رنگ جھلکتا تھا۔ ایک دور میں آپ آزادکشمیر کے مجاہد اوّل کے ہراوّل دستے کے سالار تھے۔ پھر آپ ضیاء الحق اور نواز شریف کے قریب ہوئے اور جناب مولانا اکرم اعوان ؒ کے مریدوں کی صف میں شامل ہوگئے ۔ آپ نے بیان کردہ شخصیات کو اپنی تحریروں کے ذریعے عوام کے دلوں میں بسایا اور پھر جلد ہی اس بسی بسائی بستی کو چھوڑ کر گوجر خان میں قائم آستانہ عالیہ اور عمران خان کو آئیڈیل قرار دے دیا۔ سات سو سال بعد حبیب خان نیازی اور ہیبت خان نیازی کی جگہ عمران خان نیازی کو ہارون الرشید نے اسی خطہ زمین پر متعارف کروایا جہاں محمود غزنوی ، شہاب الدین غوری، جلال الدین خوارزم شاہ ، امیر تیمور ، شیر شاہ سوری اور احمد شاہ ابدالی نے نیازیوں کی حکمرانی قائم کی تھی۔

فرق صرف اتنا ہے کہ اوّل الذکر بادشاہ تھے اور آخر الذکر قلمکار ہے۔ جب تک حبیب خان نیازی کی سیاست اور دانش اورہیبت خان نیازی اور عیٰسی خان نیاز ی کی تلوار سے خون ٹپکتا رہا اُن کی حکمرانی قائم رہی ۔ ہارون الرشید کی تحریروں اور گفتگو سے یہی تاثر ملتا ہے کہ اُن کا قلم اور علم اُن کے تیسرے مرشد کے حکم کے تابع ہے اور عمران خان کی مخالفت ایک دینی اور روحانی فریضہ ہے۔ عمران خان پر نوکا ٹولہ حملہ آور ہے جن کے اصل احداف پاکستان ، اسلام اور افواج پاکستان ہیں۔ سات سو سال پہلے حبیب خان نیازی ، ہیبت خان نیازی اور عیسیٰ خان نیازی کی حکمرانی کادور پانچ پانچ سال رہا ہے اور تینوں کے اقتدار کا خاتمہ خو نریزی اور تباہی کی صورت میں ہوا۔

حبیب خان نیازی جلال الدین خوازم شاہ کا وفادار رہا مگر اُس کے ماتحت میدان چھوڑ گئے ۔ہیبت خان نیازی اور عیسیٰ خان نیازی فرید الدین کے تو وفادار رہے مگر سلیم شاہ سے الگ ہو کر اپنی تباہی کا خود ہی انتظام کر لیا۔ ہیبت خان نیازی اور عیسیٰ خان نیازی کو بد عہدی کی بھی سزا ملی ۔ بابا فرید گنج شکر ؒکے متولی کی بد دعا اور پشین گوئی نے بھی اثر دکھلایا اورنیازی عہد کا انجام عبرتناک ہوا۔

دیکھا جائے تو عمران خان کے حالات بھی مختلف نہیں ۔ اُس کے قریبی ساتھی بے لگام ہیں جو کسی بھی وقت میدان چھو ڑ سکتے ہیں۔ اُسکا قریبی دوست اور پرچارک ہارون الرشید اُس کی مخالفت کو روحانی عمل کہتا ہے اور آئے دن اُس کی تباہی کی پشین گوئیاں کرتا ہے۔ نوکاٹولہ اور اُن کی پشت پر کھڑا مافیا نہ صرف عمران خان بلکہ سارے ملکی نظام اور ریاست پاکستان کی تباہی کا منتظر ہے۔ بھارت سمیت دنیا بھر کی پاکستان اور اسلام دشمن قوتیں نوکے ٹولے کی بھر پور مدد کر رہی ہیں اور عوام ان کے خیالات سے متاثر تبا ہی کے راستے پر گامزن ہیں۔ جمائمہ خان اور ریحام خان کی جگہ بشریٰ بی بی نیازی محل کی نگران ہیں۔ جمائمہ خان کی خاموشی کا سحر ٹوٹا تو ریحام خان کے طبلوں ، گنگروئوں اور سارنگیوں کی صدائوں سے نیازی محل گونج اٹھا مگر تنہائی پسند نیازی نے جلدہی اس ہنگامے سے علیحدگی اختیار کر لی۔ ریحام خان نے تہمینہ درانی کی طرح مائی فیوڈل لاڈاور بلس فہمی کی طرح خان کی دریا دلی تو لکھوا ڈالی مگر وہ بھول گئی کہ ایسی کتابوں کا تیسری دنیا کے عوام پر کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ عوام عاشقوں کو بھی ہیرو ہی تصور کرتے ہیں۔

عمران خان جیسے شخص پر دنیا بھر میں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں جن کی وجہ سے عمران خان دنیا بھر کی خواتین کے دلوں میں گھر کر گیا ۔ کسی نے خوب کہا کہ اگر عمران خان دنیا کے صدر کا الیکشن لڑے تو ساری دنیا کی جوان اور عمر رسید ہ عورتیں عمران خان کو ہی ووٹ دینگی ۔ عمران خان کے دھرنے کے دوران اسلام آباد، روالپنڈی ، اٹک اور گوجر خان میں قائم بیوٹی پالر والوںنے کروڑوں کا بزنس کیا۔ عمر رسیدہ عورتیں بھی میک اپ کر کے دھرنے میں بیٹھتی تھیں ۔ فاسٹ فوڈ والوں نے بھی خوب کمایا اور مالا مال ہوگئے۔

ریحام خان گئی تو بشریٰ بی بی آگئی۔ بشریٰ بی بی عاملہ ہیں ولیّہ نہیں۔ان کی روحانی نسبت حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ کی درگاہ سے ہے اورحضرت بابا فرید ؒ کا روحانیت کی دنیا میں اعلیٰ ترین مقام ہے ۔ اگر گوجر خان والے شیخ بھی کسی درجے پر ہیں تو وہ حضرت بابا فرید ؒ کے رتبے اور مقام سے بھی آگاہ ہونگے ۔ عمران خان کی ظاہری سیاسی پوزیشن اچھی نہیں مگر باطنی دنیا میں کیا ہورہا ہے اسکا احوال اہل نظر ہی جانتے ہیں۔ظاہر کا تعلق عا لم ناسوت سے ہے اور ایک باعمل عامل بھی ناسوتی کمالات کاحامل ہوتا ہے۔

You May Also Like

Liberating Kashmir Through Solidarity Days and Seminars

‘I am glad Quaid did not live to see all this.’

Fall of East Pakistan: Options not Exercised

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *